• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شرکت عنان باطل ہوجائے تو شرکت ملک بن جاتی ہے

استفتاء

میرے ماموں کی صابن بنانے کی فیکڑی تھی جس میں بندہ اکاؤنٹ کا کام کرتا تھا۔ جس میں ایک شعبہ میں کچھ حصہ دار  بھی تھے، جن کو منافع سے  حصہ ملتا تھا، اس کی صورت یہ تھی  کہ صابن کے کڑا ہے  میں ایک روپیہ ( ایک لاکھ والے کا ) اور پچاس  ہزاروالے کے پچاس پیسے اور دو لا کھ والے کو دو  روپے ملتے تھے۔ مہینے کے کرائے 2000 سے 3000 کرائے بن جاتے تھے۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے والدین کے پاس 5 لاکھ روپے رکھے ہوئے  تھے جو کہ ہم نے انہیں تقریبا  5 ماہ کے  لیے دیے تھے۔

پوچھنا یہ ہے کہ

  ۱۔یہ صورت اشتراک کی جائز تھی یا نہیں؟

۲۔ اگر ناجائز تھی تو اس رقم سے جو ہمیں منافع میں ملی تھی کیا کریں ، واپس یا صدقہ؟

۳۔ یہ بات بھی دریافت کرنی تھی کہ اس بات کو تقریباً سولہ ، سترہ سال ہوچکے ہیں ، منافع والی رقم کا  اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ کیا کیا جائے؟ کیا اندازہ ہی کر لیا جائے؟

تنقیح: منافع کی یہ شرح بغیر نفع و نقصان کے تذکرہ کے محض روپے دیتے وقت طے کی جاتی تھی، اور اس کا تعلق حاصل ہونے والے نفع یا نقصان سے بالکل نہیں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

معاملے کی یہ صورت ناجائز تھی۔ کیونکہ جس شرکت میں منافع کی بجائے سرمائے پر نفع طے ہو وہ باطل ہوتی ہے۔ اور تنقیح کے مطابق مذکورہ صورت میں ایسا ہی تھا۔ اور جب شرکت معقودہ یعنی شرکت عنان باطل ہوگئی تو مال کے مشترک ہونے کی وجہ سے یہ شرکت ملک میں تبدیل ہوگئی جس کا حکم یہ ہے کہ شریک کو بقدر مال  نفع کا استحقاق رہتا ہے ۔ چنانچہ سائل اس بات کا اندازہ کرے کہ شرکت میں لگائے گئے سرمایہ پر در حقیقت کتنا نفع ہوا تھا۔ اس کے بعد وصول کیے گئے مال کا اندازہ کرے۔ تین ہی صورتیں ممکن ہیں:

۱۔ اگر دونوں کی مقدار برابر ہو تو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۲۔اگر زیادہ وصول کیا ہے تو  دوسرے شریک کو بقدر زائد لوٹا دے۔

۳۔ اگر کم وصول کیا ہے تو دوسرے شریک سے بقدر نقصان وصول کر سکتا ہے۔

و تفسد باشتراط دراهم مسماة من الربح لأحدهما لقطع الشركة كما مر…  و  يكون الربح على قدر المال و تحته في الرد: أي و إن اشترط فيه التفاضل لأن الشركة لما فسدت صار المال مشتركاً شركة ملك و الربح في لشركة الملك على قدر المال. (شامی: 3/ 377 )

نوٹ: جواب میں اصولی بات ذکر کی گئی ہے۔ لیکن سائل کا کہنا ہے کہ یہ سولہ سترہ سال پرانی بات ہے اور نفع کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس لیے جو ہوا سو ہوا اس پر توبہ و استغفار کریں اور آئندہ احتیاط کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved