• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

شرکت فاسدہ میں نفع تقسیم کرنے کا طریقہ

استفتاء

جناب میں ملازمت کرتا ہوں اور کاروبار کے حوالے سے تقریباً 30 تولہ خالص سونا میں نے اپنے ماموں کے پاس انوسٹ کیا ہوا ہے، ہمارا  نفع کی کوئی شرح طے نہیں ہے، میرے ماموں اندازے سے ہر ماہ کبھی سات ہزار روپے اور کبھی آٹھ ہزار روپے بطور منافع  مجھے دیتے ہیں، کبھی یہ منافع تین تین ماہ لیٹ بھی ہو جاتا ہے، پھر وہ اندازے کے حساب سے تین ماہ کا اکٹھا منافع مجھے بھیج دیتے ہیں۔ لیکن اب کچھ معاملہ ایسا ہے کہ نو ماہ سے انہوں نے مجھے کسی قسم کا کوئی منافع نہیں بھیجا ہے، اور اب وہ مجھے نو ماہ کا اکٹھا منافع دیں گے، کیا یہ جو میں ان سے منافع لے رہا ہوں کہیں یہ سود کےزمرے میں تو نہیں آتا؟ خدا نخواستہ! اور اب جو یہ مجھے نو ماہ کا اکٹھا منافع بھیجیں گے کیا وہ میں اپنے استعمال میں لا سکتا ہوں یا نہیں؟ جبکہ شرح کوئی طے نہیں ہے۔

وضاحت: میں نے ماموں کو سونا شرکت کے طور پر دیا تھا ان کا بھی سونا ہو گا اور میرا بھی، وہ کاروبار کریں گے اور مجھے بھی نفع ملتا رہے گا۔ نیز اب تک کا جو میں ان سے منافع لے چکا ہوں کیا وہ بھی سود کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر وہ سود تھا تو اس کا کفارہ کیا ہو گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت شرکتِ عنان کی ہے یا مضاربت کی ہے، لیکن نفع تناسب کے اعتبار سے طے نہ کرنے کی وجہ سے سے مذکورہ مضاربت یا شرکت فاسد ہے، جب شرکت یا مضاربت فاسد ہو گئی تو نفع دونوں شریکوں کے مال کے مطابق تقسیم ہو گا، اگر دونوں کا مال و سرمایہ برابر ہے تو نفع بھی برابر ملے گا اور اگر برابر نہ ہو تو جس کا مال زیادہ ہے اس کو نفع بھی اسی حساب سے ملے گا یعنی مال کی کمی و بیشی کی صورت میں نفع بھی کم و بیش ہوگا۔ لہذا جو نفع آپ کو مل چکا ہے یا گذشتہ نو ماہ کا جو نفع آپ کو ملنا ہے اگر وہ آپ کے سرمایہ کے تناسب کے برابر ہے تو ٹھیک ہے اور اگر آپ کے سرمایہ کے تناسب سے زائد ہے تو وہ آپ نہیں لے سکتے اور اگر کم ہے تو آپ اپنے بقیہ نفع کو ان سے وصول کر سکتے ہیں۔

فریقین کو چاہیے کہ وہ توبہ استغفار کریں اور مذکورہ معاملہ کو فوراً ختم کر کے شرکت فاسدہ کو صحیح بنانے کے لیے نئے سرے سے شرکت کریں اور نفع تناسب کے اعتبار سے طے کریں۔ مثلاً حاصل شدہ نفع میں آدھا میرا اور آدھا تیرا ،یا ایک حصہ تمہارا اور دو حصے

میرے، یا ایک حصہ ایک اور باقی تین حصے دوسرے کے وغیرہ وغیرہ۔

و منها أن يكون الربح معلوم القدر فإن كان مجهولاً تفسد الشركة لأن الربح هو المعقود عليه و جهالته توجب فساد العقد كما في البيع و الإجارة. (بدائع الصنائع: 5/ 77)

كون حصص الربح التي تنقسم بين الشركاء كالنصف و الثلث و الربع جزءً شائعاً شرط فإذا تقاول

الشركاء علی إعطاء أحدهم كذا غرشاً مقطوعا تكون الشركة باطلة. (شرح المجلة، المادة: 1337)

قال العلامة الحصكفي رحمه الله: قلت صرح صدر الشريعة و ابن كمال بفساد الشركة و يكون الربح علی قدر المال. قال الشامي: قوله (و يكون الربح علی قدر المال) أي و إن اشترط فيه التفاضل، لأن الشركة لما فسدت صار المال مشتركاً شركة ملك و الربح في شركة الملك علی قدر المال. (رد المحتار: 6/ 485)

و أما الشركة الفاسدة و هي التي فإنها شرط من شرائط الصحة فلا تفيد شيئاً مما ذكرنا لأن لأحد الشريكين أن يعمله بالشركة الصحيحة و الربح فيما علی قدر المالين لأنه لا يجوز أن يكون الاستحقاق فيها بالشرط لأن الشرط لم يصح فألحق بالعدم فبقي الاستحقاق بالمال فيقدر بقدر المال و لا أجر لأحدهما علی صاحبه عندنا. (بدائع الصنائع: 5/ 104) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved