- فتوی نمبر: 9-361
- تاریخ: 16 مارچ 2017
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
محترم جناب مفتی صاحب!
میں اور میرا دوست شرکت کا کاروبار (گارمنٹس کی فیکٹری) کرتے ہیں جس میں سرمایہ ہم دونوں کا برابر اور منافع بھی برابر ہے اور بصورت نقصان بھی ہم دونوں کا نقصان برابر کا ہے اور کام بھی ہم دونوں مل کر کرتے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ میں اگر اپنا کاروبار الگ سے شروع کرنا چاہوں اور وہ مال جس میں ہم دونوں شریک ہیں اس کو میں خود ہی پہلے سے مقرر شدہ قیمت کے مطابق خرید لوں اور اس کو آگے فروخت کر دوں تو کیا میرے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ جبکہ اس الگ کاروبار کا میرے شریک کو علم نہ ہو۔
وضاحت مطلوب ہے: 1۔ آپ فیکٹری سے مال کس طرح خریدیں گے؟
2۔ آگے فروخت کا کیا طریقہ اپنائیں گے؟
3۔ اس کام کی آپ کو ضرورت کیا در پیش ہے؟
جواب: 1۔ ہول سیل پر خود خریدوں گا یعنی میرے نام سے خریدا جائے گا مگر یہ بات شریک کے علم میں نہیں آئے گی۔
2۔ اپنے دوست کی دکان پر رکھ کر بیچوں گا۔
3۔ اپنا سرمایہ لگانے کے لیے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اپنے شریک کے علم میں لائے بغیر یہ کام کرنا جائز نہیں۔ اس کے علم میں لا کر اور اجازت لے کر یہ کام کر سکتے ہیں۔
چنانچہ شامی (8/227) میں ہے:
الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه لأن الواحد لا يكون مشترياً وبائعاً فيبیعه من غيره ثم يشتريه منه وإن أمره المؤكل أن يبيعه من نفسه وأولاده الصغار أو ممن لا تقبل شهادته فباع منهم جاز.
شرح مجلہ (4/257) میں ہے:
كل قسم من شركة العقد يتضمن الوكالة فكل واحد من الشريكين في تصرفه يعني في الأخذ والبيع وتقبل العمل من الناس بالأجرة وكيل عن الآخر…………… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved