• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شوہر اپنے سسرال میں نماز پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک شخص اپنے سسرال میں جاتا ہےکیا وہ وہاں مقیم ہوگا ؟ حضرت مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا فتوٰی مقیم ہونے کا ہے ۔

چنانچہ وہ اپنی کتاب "جدید فقہی مسائل (۱/۹۸) میں لکھتے ہیں :

سسرال میں قصر کرے یا نہیں؟

ان دنوں ذرائع مواصلات کی سہولت کی وجہ سے دوردراز علاقوں میں باہم عقد نکاح کے واقعات نسبۃً زیادہ ہو گئے ہیں اوراس سلسلے میں یہ بات بکثرت درپیش ہوتا ہے کہ سسرال میں انسان کی حیثیت مسافر کی ہوتی ہے یا مقیم کی؟ یعنی وہاں اسے نمازیں مکمل کرنی چاہئیں یا چار رکعت والی نمازیں دو رکعت ادا کرنی چاہئیں  ۔

فقہاء نے اس پر بحث کی ہے ،یہ بات تو واضح  ہے کہ اگر سسرال میں مستقل طور پر بیوی کو رکھتا ہو تو وہ اس کا وطن اصلی ہے ،ہاں بیوی کے انتقال کے بعد وہ وطن باقی نہیں رہے گا ۔نیز اگر خود بھی سسرال میں بس گیا  ہو تو اب بیوی کے انتقال کے بعد بھی وہ اس کا وطن ہےاور نمازیں مکمل ادا کرنی ہیں ۔

لیکن اگر سسرال میں خود آبادہو نہ بیوی کو مستقل طور پر رکھتا ہو ،گاہے گاہے آمد ورفت کا سلسلہ ہو تو اس صورت میں قصر کرے گا یا نماز پوری کرے گا اس میں خود فقہاء احناف رحمہم اللہ کے یہاں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، بعض حضرا ت نے ایسی صورت میں اس کو مسافر مانا ہے اور اور جب تک ۱۵ دنوں کے قیام کی نیت نہ کرے ،قصر کرنے کا کہا ہے ،قاضی خان ؒ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے :

او لم يكن مولده ولكنه تاهل به وجعله دارا يصير مقيما( خانيه علي هامش الهنديه:۱/ ۱۶۵)

ترجمہ :یا ایسی جگہ ہو جہاں اس کی پیدائش نہ ہو ،لیکن اس نے وہاں شادی کرلی ہو اور اس کو گھر بنا لیا ہو تو  مقیم ہو جائے گا ۔

لیکن علامہ حلبی ؒ کا بیان ہے :

ولو  تزوج المسافر ببلد ولم ينو الاقامة فقيل لا يصير مقيما وقيل يصير مقيما وهو الاوجه لما مر من حديث عثمان ولو كان له اهل ببلدتين فايتهما دخلها صار مقيما (کبیری ۵۰۶)

ترجمہ: مسافر کسی شہر میں نکاح کر لے اور اقامت کی نیت نہ کرے تو بعض لوگوں نے کہا کہ مقیم نہ ہو گا اور بعض لوگوں نے کہا کہ مقیم ہوجائے گا اور یہی زیادہ صحیح ہے جیساکہ حضرت عثمان  ؓ کی حدیث گذر چکی ہے اگر ایک شخص کی بیوی دو شہروں میں ہو تو ان میں سے جس شہر میں بھی داخل ہو گا مقیم ہوجائے گا ۔

علامہ حصکفیؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے چنانچہ انہوں نے مطلقاً  تاہل کو وطن اصلی ہونے کے لیے کافی مانا ہے :

(الوطن الاصلي) هو موطن ولادته او تاهله او توطنه

ترجمہ : وطن اصلی وہ جگہ ہے جہاں ولادت و شادی ہو یا اس کو وطن بنا لیا ہو۔

اور شامی ؒ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے نیز جیساکہ حلبی ؒ کی صراحت مذکور ہوئی ، حضرت عثمان ؓ کے عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، اسی لیے صحیح یہی  ہے کہ سسرال میں اگر مستقل طور پر بیوی کو نہ رکھتا ہو اور نہ خود شوہر نے اس جگہ کو اپنا وطن بنایا ہو تب بھی سسرال میں نمازیں پوری ادا کرنی چاہئیں۔واللہ اعلم

اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کسی آدمی کا سسرال شرعی مسافت سفر پر واقع ہے اور وہاں جا کر اس نے 15 دن سے کم رہنے کی نیت کی تو ایسی صورت میں وہ آدمی مسافر ہوگا اور محض سسرال کی وجہ سے مقیم نہیں سمجھا جائے گا۔

جہاں تک مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے فتوے کی بات ہے  تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ انہوں نے اپنے فتوے کی بنیاد حلبی کبیر کی اس عبارت پر رکھی ہے  :

ولو  تزوج المسافر ببلد ولم ينو الاقامة فقيل لا يصير مقيما وقيل يصير مقيما وهو الاوجه لما مر من حديث عثمان ولو كان له اهل ببلدتين فايتهما دخلها صار مقيما (کبیری ۵۰۶)

جبکہ  ہماری تحقیق میں حلبی کبیر کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ مسافر نے ایک شہر میں نکاح کیا  اور نکاح کرکے  بیوی کو اسی شہر میں ٹھہرایا لیکن اس کا ارادہ وہاں پر خود قیام کا نہیں ہے  تو ایسی صورت میں بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ وہ شخص وہاں مقیم نہیں ہو گا لیکن دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ بیوی کو اسی شہر میں ٹھہرانے کی وجہ سے شوہر بھی اس شہر  میں مقیم سمجھا جائے گا اور یہی بات زیادہ صحیح ہے ۔مزید فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ کے عمل سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اگرچہ وہ خود مدینہ طیبہ میں رہتے تھے لیکن چونکہ ان کی ایک اہلیہ مستقل طور پر مکہ مکرمہ میں مقیم تھیں لہذا انہوں نے مکہ مکرمہ میں قصر نہیں کیا بلکہ پوری نماز ادا فرمائی۔

جو شخص نکاح کے بعد اپنی بیوی کو اپنے شہر  لے جائے  یہ عبارت اس شخص  کے بارے میں نہیں کیونکہ ایسےشخص کی تو خود بیوی اپنے میکے میں آکر مقیم نہیں ہوتی تو اس کا شوہر کیونکر مقیم ہوگا ۔

امداد الاحکام  (1/693) میں ہے:

سوال: کبیری شرح منیہ ۵۹۲ میں ہے، لوتزوج المسافر ببلدولم ینوالاقامۃ بہ فقیل لایصیرمقیما وقیل یصیرمفیما وھو الاوجہ لمامرمن حدیث عثمانؓ(روی الامام احمدوابوبکر بن ابی شیبۃ وابوعمر بن عبدالبروالطحاوی ان عثمانؓ صلی بمنیٰ اربع رکعات فانکرالناس علیہ فقال ایھا الناس انی تاھلت بمکۃ منذقدمت وانی سمعت رسول اللہ ا یقول من تاھل فی بلدفلیصل صلوٰۃ المقیم)ولو کان لہ اھل ببلدتین فایتھماد خلھا صارمقیما وان ماتت زوجتہ فی احدیھما وبقی لہ فیھا دوروعقار قیل لاتبقی وطنالہ اذالمعتبرالاھل دون الدارکمالوتاھل ببلدۃ واستقرت سکنی لہ ولیس لہ فیھادوروقیل تبقی اھ،

حافظ عبداللطیف صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر زوجہ مستقل قیام (جیسا کہ نکاح سے پیشتر تھا) اپنے والدین کے وطن میں رکھے، جب تو خاوند کے لیے سسرال وطن بن جائے گا اور اگر(ہمارے دیارکی طرح) مستقل قیام خاوند کے وطن میں کرلے اور والدین کے ہاں محض ملاقات کو آیا کرے تو خاوند سسرال میں مسافر رہے گا، (بلکہ عورت بھی اس حالت میں قصر کرے گی، کماہومصرح فی بہشتی زیور)احقر کی فہم ناقص میں یہ آتا ہے کہ عورت کا جس جگہ مستقل قیام ہو وہ خاوند کاوطن اصلی قرار دیا جائے گا، اور اذا لمعتبرالاہل دون الدارالخ سے یہی مفہوم ہوتا ہے، اور اس توجیہ پرخاوند کا تابع للزوجہ ہونے کا اشکال بھی نہیں ہوتا، البتہ یہ سوال ہوگا کہ وطن قدیم وطن رہے گا یا نہیں، اگر نہیں جب تو کچھ اشکال نہیں، اور اگر وہ بھی وطن رہے گا تو دو وطن ہوجائیں گے، حالانکہ الوطن الاصلی یبطل بمثلہ کے موافق وطن اصلی متعدد نہیں ہوسکتے، اور متعدداہلیہ ہونے کی صورت میں بھی یہی اشکال ہے، مسئلہ کی تحقیق فرماکر حدیث کا محمل بھی بیان فرمادیجئے، یعنی اگر قصردرسسرال علی الاطلاق نہیں تو حضرت عثمانؓ کا استدلال کس طرح صحیح ہوگا؟ عبدالکریم گمتھلوی

الجواب۔ صورت مسئولہ کاحکم یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہر میں نکاح کرکے زوجہ کو وہاں نہ رکھے بلکہ اپنے شہر میں لے آئے تو زوجہ کا وطن شوہرکاوطن اصلی نہ ہوگا، شوہر جب وہاں مسافرہوکر گزرے توقصر کرے گا، اور اگر زوجہ کواسی کے وطن میں رکھے تو اس کاوطن زوج کا وطن ہوجائے گا، خواہ زوج کامستقل قیام اپنے وطن میں رہتا ہو یا دونوں جگہ رہتا ہو، اس پرغالباً سائل کو کبیری کے اس جزئیہ سے اشکال پیش آئے گا، لوتزوج المسافر ببلدولم ینوالاقامۃ فقیل لایصیرمقیماً وقیل یصیرمقیماًدہوالاوجہ لمامرمن حدیث عثمان اھ یہی جزئیہ فتح القدیر میں بھی ہے کمامر، مگرموجب اشکال کچھ نہیں، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسافر نے ایک شہر میں نکاح کیا، اور اس کا ارادہ بنفسہٖ وہاں قیام کرنے کا نہیں(لیکن زوجہ کو وہیں رکھنے کا ارادہ ہے) تو اوجہ یہ ہے کہ وہ مقیم ہوجائے گا، جیسا کہ حدیث عثمانؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ باوجودیکہ مکہ میں مقیم نہ تھے اور نہ ان کو مکہ میں اقامۃ جائز تھی، قال فی الفتح ان الاقامۃ بمکۃ علی المہاجرین حرام کماسیأتی ، اھ ، ص۴۷۰، ج۲، لیکن پھر بھی انہوں نے قصر نہ کیا، کیونکہ ان کی ایک اہل مستقل طورپرمکہ میں مقیم تھی، اس سے معلوم ہوا کہ شوہرکامستقل قیام گو اپنے وطن میں ہو لیکن جب اس کی بیوی کا مستقل قیام دوسری جگہ ہوگا تو شوہر وہاں جاکرمقیم ہوجائے گا، کمامرعن السراجیۃ اذادخل المسافربلدۃ لہ فیہا اہل(ای مقیمۃ) صارمقیمانوی الاقامۃ اولا، اور جن قائلین نے اس صورت میں شوہر کومقیم نہیں مانا، جیساکہ کبیری میں دوسرا قول مذکور ہے، انہوں نے اس پرنظرکی ہے، کہ جب شوہرکاقیام زوجہ کے بلد میں نہیں رہتا اور نہ وہ اقامت کا وہاں قصد کرتا ہے تو پھر اس کو مقیم نہ کرنا چاہیے مسافر ہی ماننا چاہیے، اور حدیث عثمانؓ کونیت اقامۃ پرحمل کرتے ہین، مگراس کاجواب یہ ہے کہ مردکازوجہ کومستقلاً، کسی مقام پر رکھنا یہ عملاً اقامت ہے، لانہ لایخلوعن نوع تعیش بہ وتاہل، لہٰذا اس صورت میں نیت عدم اقامت کا اعتبار نہ ہوگا، لاسیما وقدتایدبحدیث عثمان وانہ اتم بمکۃ مستدلابہ مع انہ لم لقیم بہا البتۃ فافہم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved