- فتوی نمبر: 17-351
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ زید نے ایک عدد مکان کرایہ پر لیا اوربیوی سے یہ طے پایا کہ آدھا حصہ میں خود کی رہائش ہوگی اورآدھا کرایہ پردے کر دوسرا کرایہ داررکھ لیا جائے تاکہ آسانی سے کرایہ اوربل ادا ہوجائیں ۔ کرایہ دار رکھ لیا گیا لیکن کچھ مشکل کی وجہ سے کرایہ دار چھوڑ گیا دوسرا کرایہ دار رکھنے پر کچھ مشکلات ہو رہی تھیں کہ زیدنے بیوی سے مشورہ کیا کہ دوسرا کرایہ دار رکھنے سے مشکل ہے،لہذا باہر والے کمرہ میں مکتب بنالیا جائے اس سے جوآمدن ہوگی اس سے کرایہ اوربل نکال کرباقی رقم بیوی کی ہوگی ۔لیکن کافی عرصہ سے اس مکتب کی آمدن زید کی بیوی خودہی وصول کرتی رہی اوراپنی مرضی سے ہی خرچ کرتی رہی اوراس سے کچھ حصہ زید کے دوست کے ساتھ کمیٹی میں دیتی رہی جبکہ کمیٹی میں بھی رقم کا کچھ حصہ زید اپنی جیب سے دے کر کمی پوری کرتا رہا ،اب کمیٹی کی رقم جب ملی تو زید کی بیوی کے کہنے پر کمیٹی کی رقم کا زیادہ حصہ اس کے والد کو بیوی کی طرف سے بطور قرض دیاگیا ۔اس کے باوجود بھی جو رقم زید نے رکھی اس کو اس کی بیوی زید پرقرض خیال کرتی ہے۔توکیا شرعی لحاظ سے یہ قرض ہوگا؟جبکہ مکان کا کرایہ اور ایڈوانس زید اپنی جیب سے ہی ادا کررہا ہے اورآمدن سے زید اپنی ضرورت بالکل بھی پوری نہیں کرتا اورزید نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کرایہ لیا نہ بل وغیرہ۔اور استعمال بھی مشترکہ ہے لہذا شرعی لحاظ سے رہنمائی فرمائیں اورزید نے جورقم بیوی کے والد کودی وہ اس کے مہرمیں دی جاسکتی ہے کیونکہ زیدنے جب دی تو زید نے کاکہنا تھاکہ یہ میری طرف سے آپکا مہر ہے جبکہ مہر کی رقم زید بیوی کی اجازت سے پہلے ہی استعمال کرچکا ہے۔
نوٹ:جب زید کی بیوی اچھے موڈ میں ہو تو کہتی ہے سب کچھ زید کا ہے جب جھگڑاکرتی ہے تو قرض کہتی ہے ۔مکتب بیوی چلاتی تھی اسی کےپاس سارا انتظام تھا۔
وضاحت مطلوب ہےکہ
(۱)کیا بیوی اس تحریر سے متفق ہے ؟اگرمتفق ہےتواپنے دستخط اورفون نمبرلکھ دےاوراگر متفق نہیں تو اپنامؤقف لکھ دے۔(۲)مہر کی رقم پہلے کہاں دے چکی تھی (۳) اچھے موڈمیں ہو تو کیا کہتی ہے
جواب وضاحت:
(۱)بیوی شوہر کے بیان سے متفق ہے جس کےدستخط لف ہیں۔(۲)پہلے ایک پلاٹ خریدا تھا اس کی خریداری میں دیے تھے بطور ہدیہ کہہ لیں (۳) یہ سب کچھ آپ ہی کا ہے
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مکتب چونکہ بیوی چلاتی تھی اورہمارے عرف میں بیوی جوکمائی خود کرے وہ اسی کی شمار ہوتی ہے،لہذا اس کمائی سے کمیٹی کےجتنے پیسے اداکیے گئے وہ اسی (بیوی)کے ہوں گے اورجوپیسے کمیٹی میں شوہر نے جمع کروائے وہ شوہر کے شمار ہوں گے البتہ شوہر کا ابتدامیں بیوی کو یہ کہنا کہ مکتب کی آمدنی سے کرایہ اوربل نکال کرباقی رقم بیوی کی ہوگی ،اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ بغیر عوض کے یہ کمرہ بیوی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے،اس لیے شوہر بیوی سے اس کمرہ کا جو کرایہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے بنتا ہے وہ لے سکتاہے۔اورمہر کی رقم چونکہ بیوی خود پہلے سے دے چکی ہے اس لیے اب اسے دینے کی ضرورت نہیں ہے
امداد الفتاوی(3/515)میں ہے:
سوال: ایک استفتاء آیا ہے جس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جائے۔شامی فاروقی(349)فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ:
تنبیة: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امرأۃ وابنها اجتمعا فی دار واحدۃ وأخذ کل منهما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولاالتمییز فأجاب بأنه بینهما سویة الخ
چند سطروں کے بعد لکھا ہے:
فقیل هی للزوج وتکون المرأۃ معینة له الااذا کان لها کسبا علی حدۃ فهو لها وقیل بینهما نصفان۔(والسلام)
الجواب: میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں۔ وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفا کسب ہوتا ہی نہیں۔وہاں تو اس کو معین سمجھا جائے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لیے کسب کرتے ہیں جیسا کہ اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جائے گا۔
نوٹ: بیوی کے یہ الفاظ (یہ سب کچھ آپ کا ہے) یہ اقرار کے الفاظ ہیں اور ایسی صورت بھی نہیں ہے کہ بیوی کی وہ چیزیں ہونا معروف ہو جس کی بنیاد پر انہیں ہبہ بناسکیں اور پہلے سے ہبہ کی کوئی صورت بھی نہیں ہے اس لیےیہ خلاف واقعہ اقرار بنے گا اوریہ چیزیں بیوی کی باقی رہیں گی
© Copyright 2024, All Rights Reserved