- فتوی نمبر: 33-133
- تاریخ: 08 مئی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > روٹی، کپڑے اور رہائش کا بیان
استفتاء
میرا نام *** ہے۔ ہم تین بھائی تین بہنیں ہیں۔ میری اہلیہ اکیلی ہے اس کے بہن، بھائی کوئی نہیں ہے۔ اہلیہ کے امی ابو فوت ہو چکے ہیں۔چچا،تایا میں سے بھی کوئی حیات نہیں۔ تایا کے بچے حیات ہیں جن میں 2 بیٹے اور 1 بیٹی ہے۔ اس کے علاوہ دو ماموں حیات ہیں۔ اہلیہ کے نام ایک گھر ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہماری ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
1۔ اگر میں فوت ہو جاؤں تو اہلیہ شرعی لحاظ سے کس کی ذمہ داری میں آئے گی؟
2۔اگر اہلیہ فوت ہو جائے تو ہمارا مکان شرعی لحاظ سے کس کا ہوگا؟
3۔اگر ہماری اولاد ہوئی یا ہم کسی کا بچہ لے کر پالتے ہیں تو شرعی لحاظ سے وراثت کا کیا حکم ہے؟
4۔ اگر ہم اس لے پالک کو مکان دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں؟
5۔ اگر ہم اپنی زندگی میں اس گھر کو اللہ کی راہ میں وقف کریں تو کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) اگر آپ کی اہلیہ مال دار ہوں اور اپنا خرچہ خود اٹھا سکتی ہوں تو ان کا خرچہ خود انہی کے ذمہ ہوگا اور اگر وہ اپنا خرچہ خود نہیں اٹھا سکتیں تو ان کا خرچہ ان کے دونوں ماموں پر ہوگا۔
(2) اگر آپ کی اہلیہ فوت ہو جائیں اور اس وقت صرف یہی ورثاء زندہ ہوں تو آپ کی اہلیہ کے مکان کے کل چار حصے کیے جائیں گے جن میں سے دو حصے ( %50) آپ کے اور ایک، ایک حصہ (%25,%25) اہلیہ کے تایا زاد بھائی میں سے ہر بھائی کا ہو گا۔
صورت تقسیم درج ذیل ہے:
4
شوہر | 2 تایا زاد بھائی |
2/1 | عصبہ |
2 | 2 |
2 | 1+1 |
(4-3) اگر آپ کے ہاں اولاد ہوئی تو اولاد بھی مکان میں حصہ دار ہوگی۔ چونکہ اس صورت میں بیٹے اور بیٹی کے احکام مختلف ہوں گے لہذا موقع پر تقسیم کی صورت دریافت کر لی جائے اور اگر آپ کسی کا بچہ لے کر پالتے ہیں تو وہ آپ کا اور آپ کی اہلیہ کا وارث نہیں بنے گا۔ البتہ اگر آپ کی اہلیہ اپنی زندگی میں اسے کچھ ہبہ( گفٹ) کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔
(5)اگر آپ کی اہلیہ اپنی زندگی میں اس گھر کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیں تو جائز ہے۔تاہم وقف کرنے کی صورت میں آپ کی اہلیہ کے لیے اس گھر میں رہنا جائز نہ رہے گا۔البتہ اگر وہ وقف کرنے کے ساتھ یہ شرط لگا لیں کہ جب تک وہ زندہ رہیں گی، اس گھر میں رہیں گی تو اس صورت میں آپ کی اہلیہ کے لیے اس گھر میں رہنا جائز ہوگا اور اہلیہ کی وفات کے بعد گھر وقف کے لیے استعمال ہوگا۔
ہندیہ (1/587) میں ہے:
والنفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان صغيرا فقيرا أو كانت امرأة بالغة فقيرة أو كان ذكرا فقيرا زمنا او أعمى……. لا يقضي بنفقة أحد من ذوي الارحام إذا كان غنيا….. وتجب نفقة الإناث الكبار من ذوي الارحام وإن كن صحيحات البدن إذا كان بهن حاجة الى النفقة كذا في الذخيرة.
ہندیہ (1/588) میں ہے :
ولو كان له خال من قبل الأب والأم وابن عم لأب وأم فالنفقة على الخال والميراث لابن عم لأن شرط وجوب النفقة هو أن يكون ذو الرحم المحرم من أهل الميراث ولو كان رحما غير محرم نحو ابن عم …. لا تحب النفقة .
احکام القرآن (3/291) میں ہے :
المتبني لا يلحق في الأحكام بالابن فلا يستحق الميراث ولا يرث عنه المدعى.
ہندیہ (2/388) میں ہے :
في الذخيرة : إذا وقف أرضا أو شيئاً أخر وشرط الكل لنفسه او شرط البعض لنفسه مادام حيا وبعده للفقراء قال ابو یوسف رحمه الله الوقف صحیح و مشائخ بلخ رحمهم الله تعالى أخذوا بقول أبي يوسف وعليه الفتوى ترغيبا للناس في الوقف.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved