• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  شوہر کا بیوی کو’’ اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ‘‘  کہنے  کا حکم

استفتاء

کیا  فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی والدہ اور بیوی کے درمیان لڑائی ہو گئی ، اس کی بیوی میکے جانے لگی تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’ اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ‘‘ اس کے باوجود اس کی بیوی نہیں رکی ، تقریبا دس پندرہ منٹ تیاری کرتی رہی ، کپڑے وغیرہ نکالتی رہی اور اپنے کپڑے لے کر میکے چلی گئی اور چار ماہ سے اپنے میکے میں ہے ، اس دوران تین ماہواریاں بھی گزر چکی ہیں، آیا اس صورت میں طلاق واقع ہو چکی ہے؟ اگر واقع ہو چکی ہے تو صلح ہو سکتی ہے؟

سائل: امین اللہ شاہ (لڑکی کا چچا)

شوہر کا بیان:

مجھے اس بیان سے اتفاق ہے، میں نے اپنی بیوی سے کہا تھاکہ ’’ اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ‘‘ اس کے باوجود وہ بالکل  نہیں رکی، تقریبا دس منٹ تک وہ اپنے کپڑے وغیرہ گٹھڑی میں باندھتی رہی ، اس دوران وہ بالکل نہیں بیٹھی، پھرکپڑے لے کر میکے چلی گئی، چار ماہ سے وہ اپنے میکے میں ہے، میں نے ابھی تک رجوع نہیں کیا۔

شوہر کا رابطہ نمبر:

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے گھر سے نکلتے ہی ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی تھی، پھر چونکہ عدت کے اندر شوہر نے رجوع نہیں کیا لہذا عدت گزرنے  سے وہ رجعی طلاق بائنہ بن گئی اور سابقہ نکاح ختم ہو گیا، اب اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: آئندہ شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

توجیہ: شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’ اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ‘‘ بیوی کے گھر سے نکلنے پر طلاق معلق ہو گئی ، پھر اگرچہ یہ صورت یمین فور کی ہے اور بیوی تقریبا پندرہ منٹ بعد گھر سے نکلی ہے لیکن چونکہ بیوی پندرہ منٹ جانے کی تیاری میں لگی رہی  اس لئے ترک خروج نہیں پایا گیا اور طلاق واقع ہو گئی۔

شامی (579/5) میں ہے:

مطلب في يمين الفور

(قوله فورا) سئل السغدي بماذا يقدر الفور؟ قال بساعة، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير: أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت وجلست وخرجت بعد ساعة لا يحنث حموي عن البرجندي، ولا يشترط لعدم حنثه إذا خرجت بعد ساعة تغير تلك الهيئة الحاصلة مع إرادة الخروج، يشير إليه قول الفتح تهيأت للخروج، فحلف لا تخرج فإذا جلست ساعة ثم خرجت لا يحنث لأن قصده منعها من الخروج الذي تهيأت له فكأنه قال إن خرجت الساعة، وهذا إذا لم يكن له نية فإن نوى شيئا عمل به شرنبلالية.

قلت: وهو مفاد عبارة الجامع الصغير أيضا، لكن في البحر عن المحيط إن لم تقومي الساعة وتجيئي إلى الدار فأنت كذا فقامت الساعة ولبست الثياب وخرجت ثم رجعت وجلست حتى خرج الزوج فخرجت وأتت الدار بعده لا يحنث لأن رجوعها وجلوسها ما دامت في تهيؤ الخروج لا يكون تركا للفور كما لو أخذها البول فبالت قبل لبس الثياب اهـ ملخصا إلا أن يفرق بين الإثبات والنفي فإن المحلوف عليه في الأول عدم الخروج وهو ترك فيتحقق بتحقق ضده وهو الجلوس على وجه الإعراض فإنها إنما جلست للإعراض عن الخرجة المحلوف عليها فيتحقق عدم الخروج سواء تغيرت الهيئة أو لا والمحلوف عليه في الثاني المجيء المثبت، وهو لا يتحقق إلا بفعله والفاعل إذا تهيأ للفعل وجلس منتظرا له عازما عليه لا يكون معرضا عنه بل هو فاعل حكما لكن لا بد من بقاء تلك الهيئة هنا ليعلم بها أن الجلوس ليس على وجه الإعراض لأن الجلوس ضد الفعل المراد ظاهرا هذا ما ظهر لي فتدبره

و قال الرافعی:قوله (بساعة) تقدير الفور بساعة غير متحقق في كل المسائل، بل المدار فيه علي ما يقال له فور عرفاكما يظهر من الفروع الآتية.

عالمگیری (1/420) میں  ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

بدائع الصنائع (283/3) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved