- فتوی نمبر: 12-184
- تاریخ: 13 جون 2018
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
1۔ ہم لڑکی کے والدین 1989سے جدہ سعودی عرب میں مقیم ہیں ۔
۲۔ ستمبر 2014میں لڑکی کے سگے چچا (اویس الحسن صدیقی )نے اپنے لڑکے صالح حس صدیقی کے لیے ہماری لڑکی کا رشتہ مانگا اور یہ کہہ کر مانگا کہ ان کا لڑکا مزید تعلیم کے لیے یورپ جانا چاہتا ہے اور وہ اس کو اکیلے نہیں جانے دینا چاہتے ۔ہم نے نیک نیتی سے یہ رشتہ قبول کرلیا ۔طے یہ پایا تھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں ایک ہی یونیورسٹی سے کمپیوٹر کی ماسٹر ڈگری کی تعلیم حاصل کریں گے۔ہم نے کاغذی کاروائی کی خاطر مارچ 2015میں دونوں کا نکاح کردیا ۔
۳۔ نکاح ہونے کے چند دن بعد ہی لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ اس کی ماںکو سونے کا تحفہ کیوں نہیں دیا گیا ۔لڑکی کے بھائی نے لڑکے کو گھڑی کیوں نہ دی (جبکہ والدین کی طرف سے پانچ ہزار روپے دیئے گئے )اور یہ بھی کہا کہ میں نے یہ نکاح تمہارے بھائی کا احسان چکانے کے لیے کیا تھا (احسان یہ تھا کہ اس کی پاکستان کی تعلیم کے اخراجات لڑکی کے بھائی نے برداشت کیے تھے )
۴۔ نکاح ہونے کے تین ہفتے بعدلڑکے کے بڑے بھائی نے ہم سے چار لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ پیسے بزنس کے لیے لے رہا ہوں اور چار ماہ میں واپس کردوں گا ۔ہم نے بغیرکسی حجت کے بہ مطالبہ پورا کردیا ۔
۵۔ جب یورپ (جرمنی )کی یورنیورسٹی میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو لڑکے نے نہایت چالاکی سے اس شہر کی کسی یونیورسٹی میں داخلے کی درخواست ہی نہیں دی جو کہ پہلے سے طے تھا کہ یہاں پڑھائی کرنی ہے ۔
۶۔ لڑکے کو یونیورسٹی میں پڑھنے کے پیسے بھی ہم نے ہی دیئے تھے ۔پہلے سے مطالبہ تھا کہ ایک سال کی پڑھائی کے پیسے دے دیں ۔دوسرے سال کی پڑھائی کے پیسے وہیں جاب کر کے کمائے گا ۔لیکن اس نے نہایت چالاکی سے ہم سے دونوں سالوں کے پیسے لے لیے ۔
۷۔ ہمارا خیال تھا کہ وہاں جا کر لڑکا اپنی بیوی کو فیملی ویزا پر بلائے گا مگر یورپ جا کر تو اس کے تیور ہی بدل گئے ۔
۱۔ لڑکی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا تھا ۔
۲۔ رابطہ صرف پیسے کے مطالبے کے لیے ہوتا تھا ۔
۳۔ لڑکی کی شکل وصورت ،جسم اور تعلیم پر نکتہ چینی کرتا اور بے بنیاد الزامات لگاتا تھا ۔
۴۔ لڑکی سے مستقل طور پر ملازمت کرتے رہنے کا مطالبہ کرتا رہتا تھا اور مختلف موقع پر چالاکی سے اس کی آمدنی لیتا رہتا تھا ۔
۵۔ انتہائی بے ہودہ او ر نازیبا الفاظ استعمال کرتا تھا ۔
۶۔ اپنی زبان سے کئی دفعہ اقرار کر چکا تھا کہ اسے رخصتی کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔
۷۔ لڑکی کے والدین لڑکے کے والدین سے جب بھی رخصتی کا مطالبہ کرتے تو او ل تو وہ انکار کرتے رہے ۔بعد میں تعلیم مکمل کرنے تک کی مہلت کا کہا جاتا ۔اسی طرح ڈھائی سال گذرگئے۔
۸۔ ان ڈھائی سالوں میں بہت بار مختلف بہانوں سے لاکھوں روپے لے گئے اگر سارے پیسے ملائیں جائیں تو پچاس لاکھ روپے بن جاتے ہیں ۔
۹۔ جولائی 2017جب اس کی پڑھائی مکمل ہونے میں چند مہینے رہ گئے تھے کو طلاق کی دھمکیاں دینی شروع کریں ۔ کبھی لڑکی سے کہتا کہ ’’تم خود کشی کر لو تاکہ چھٹکار ا مل جائے‘‘
۱۰۔اب اس نے ملحدانہ باتیں بھی شروع کردیں ۔کہتا تھا کہ میں کالی ماتا کو مانتا ہوں ،نماز پڑھنی چھوڑ دی لڑکی سے کہتا کہ ’’تم مجھے طلاق دے دو ‘‘نان نفقہ کی ذمہ دار ی مرد کی نہیں ۔
۱۱۔ اس نے نائٹ کلب کے بارے میں بھی باتیں شروع کردیں۔ایک دن اس نے کہا کہ اس نے شراب چکھی ہے۔اس نے Instagram پر شراب کو likeکرنابھی شروع کردیا ۔
۱۲۔23نومبر 2017کو لڑکے کی والدہ نے ہماری لڑکی سے ٹیلی فون پر بات کی اور اس کی شکل وصورت بہت بے عزتی کی جس پر ہماری لڑکی نے کہا کہ آپ اپنے لڑکے ی جہاں مرضی شادی کردیں اور میری جان چھوڑدیں۔یہ کہنے کے کچھ دیر بعد لڑکے نے لڑکی کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ ’’تم اب نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار ہو جائو اور اس میں مرگیا تمہارے لیے ،اور تم مر گئی میرے لیے‘‘
۱۳۔28نومبر2017کو ہم نے وکیل کیا اور 29نومبر کو خلع کے لیے درخواست دی ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شوہر کا یہ کہنا کہ ’’میں کالی ماتا کو مانتا ہوں ‘‘کفریہ جملہ ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا نیز لڑکی کے یہ کہنے پر کہ’’ آپ اپنے لڑکے کی جہاں مرضی شادی کردیں اور میری جان چھوڑ دیں‘‘لڑکے کا فون پہ یہ کہنا کہ ’’تم اب نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار ہو جائو اور میں مر گیا تمہارے لیے اور تم مرگئی میرے لیے ‘‘یہ الفاظ بھی اپنے سیاق وسباق کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ جن سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔غرض مذکورہ صورت میں لڑکی کا نکاح ختم ہو چکا ہے اس لیے وہ اگر کسی دوسر ی جگہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved