- فتوی نمبر: 18-50
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے میاں میرے ساتھ رہتے ہوئے فزیکل ریلیشن(جسمانی تعلق) میں کئی کئی مہینوں تک نہیں آتے۔مجھے میرے شوہر کے پیار کی طلب ہوتی ہے مگر وہ غصہ کر کے دھکا دے کر پیچھے کردیتے ہیں اور میں بس روتی اور تڑپتی رہتی ہوں ۔ابھی شادی کو پانچ سال ہوئے ہیں۔ دو بچے ہیں ،بیٹا اور بیٹی۔
دو سال سے ہمارا ریلیشن زیرو ہے۔ساتھ رہتے ہوئے ڈیڑھ سال تک کوئی فزیکل ریلیشن نہیں رہا ،اس کے بعد اب پھر سات ماہ ہوگئے ہیں کوئی فزیکل ریلیشن نہیں ۔مجھے اس مسئلہ کے بارے میں بتائیں کہ شوہر کے لئے کوئی حکم نہیں سب حکم بیوی کے لئے ہیں؟کیا یہ ہمارا نکاح ابھی بھی صحیح ہے؟
میں نے سنا ہے اگر تین یا چار ماہ تک شوہر پاس نہ آئے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔نماز اور قرآن بھی پڑھتی ہوں، اللہ سے مدد بھی مانگتی ہوں، مگر انسان ہوں ،میری بس ہوجاتی ہے۔اب جب میں نے بیوی ہونے کی حیثیت سے اپنی طرف سے ہر کوشش کرلی جو میں کر سکتی تھی اپنے شوہر کی توجہ اور پیار حاصل کرنے کے لیے مگر کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔
اب الٹے سیدھے خیال آتے ہیں کہ کسی اور لڑکے سے ناجائز تعلق رکھ کر اپنی طلب پوری کرلوں یا زہر کھا کر زندگی ختم کرلوں، کیونکہ میں بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی ،ان کا بھی خیال آتا ہے ، میں ذہنی مریض بن گئی ہوں، سوچتی رہتی ہو ں یا روتی ہوں بہت، بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ،سر میں درد رہتا ہے۔
سسرال میں رہتی ہوں ،گھر کے سب کام بھی کرتی ہوں اور میرا سوال یہ ہے کہ اگر میرے شوہرحقوق زوجیت ادا نہیں کرتے تو میں ان سے طلاق لے سکتی ہوں یا میں کیا طریقہ اختیار کروں؟ اگر میں ان کو کہتی ہوں کہ میں اپنے والدین کے گھر جا کر رہتی ہوں تو اس پر بھی تیار نہیں ہوتے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر بیوی كا مطالبہ ہوتو شوہر پر واجب ہے کہ کم از کم چار مہینے میں ایک دفعہ اپنی بیوی سے صحبت کرے اگر وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں توگناہگار ہو گالیکن اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا لہذا ابھی بھی آپ دونوں کا نکاح برقرار ہے۔
اگر آپ کا شوہر حقوق زوجیت ادا کرنے پر تیار نہیں اور آپ کے لیئے صبر کرنا بھی مشکل ہے تو آپ کچھ دے دلا کر طلاق یا خلع حاصل کرنے کی کوشش کریں اگر وہ اس پر بھی تیار نہیں ہوتا تو آپ اپنی طلب پوری کرنے کے لیئے کوئی مصنوعی آلہ استعمال کرسکتی ہیں اور اگر ایسا کرنے سے بھی شہوت کا زور نہ ٹوٹے اور زنا میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہو تو عدالت سے حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی ڈگری لے لیں اور عدت کے بعد کسی اور جگہ نکاح کر لیں لیکن کسی اور لڑکے سے تعلق قائم کرنا یا زہرکھانا کسی صورت میں جائز نہیں۔
درمختار جلد 4 صفحہ 376 میں ہے:
ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة احيانا ولايبلغ مدة الايلاءالابرضاها
و فى الشامية تحته
"(قَوْلُهُ وَيَسْقُطُ حَقُّهَا بِمَرَّةٍ) قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَاعْلَمْ أَنَّ تَرْكَ جِمَاعِهَا مُطْلَقًا لَا يَحِلُّ لَهُ، صَرَّحَ أَصْحَابُنَا بِأَنَّ جِمَاعَهَا أَحْيَانًا وَاجِبٌ دِيَانَةً، لَكِنْ لَا يَدْخُلُ تَحْتَ الْقَضَاءِ وَالْإِلْزَامِ إلَّا الْوَطْأَةُ الْأُولَى وَلَمْ يُقَدِّرُوا فِيهِ مُدَّةً.
وَيَجِبُ أَنْ لَا يَبْلُغَ بِهِ مُدَّةَ الْإِيلَاءِ إلَّا بِرِضَاهَا وَطِيبِ نَفْسِهَا بِهِ. اهـ. قَالَ فِي النَّهْرِ: فِي هَذَا الْكَلَامِ تَصْرِيحٌ بِأَنَّ الْجِمَاعَ بَعْدَ الْمَرَّةِ حَقُّهُ لَا حَقُّهَا اهـ. قُلْت: فِيهِ نَظَرٌ بَلْ هُوَ حَقُّهُ وَحَقُّهَا أَيْضًا، لِمَا عَلِمْت مِنْ أَنَّهُ وَاجِبٌ دِيَانَةً. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَحَيْثُ عُلِمَ أَنَّ الْوَطْءَ لَا يَدْخُلُ تَحْتَ الْقَسْمِ فَهَلْ هُوَ وَاجِبٌ لِلزَّوْجَةِ وَفِي الْبَدَائِعِ: لَهَا أَنْ تُطَالِبَهُ بِالْوَطْءِ لِأَنَّ حِلَّهُ لَهَا حَقُّهَا، كَمَا أَنَّ حِلَّهَا لَهُ حَقُّهُ، وَإِذَا طَالَبَتْهُ يَجِبُ عَلَيْهِ وَيُجْبَرُ عَلَيْهِ فِي الْحُكْمِ مَرَّةً وَالزِّيَادَةُ تَجِبُ دِيَانَةً لَا فِي الْحُكْمِ عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِنَا وَعِنْدَ بَعْضِهِمْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِي الْحُكْمِ. اه(2/645)
درمختار جلد 5 صفحہ 89 میں ہے
"وَلَا بَأْسَ بِهِ عِنْدَ الْحَاجَةِ لِلشِّقَاقِ و فى الشامية تحته
"(قَوْلُهُ: لِلشِّقَاقِ) أَيْ لِوُجُودِ الشِّقَاقِ وَهُوَ الِاخْتِلَافُ وَالتَّخَاصُمُ. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ عَنْ شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ: السُّنَّةُ إذَا وَقَعَ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ اخْتِلَافٌ أَنْ يَجْتَمِعَ أَهْلُهُمَا لِيُصْلِحُوا بَيْنَهُمَا، فَإِنْ لَمْ يَصْطَلِحَا جَازَ الطَّلَاقُ وَالْخُلْعُ.اه
شامی (4/377) میں ہے :
وسيأتي في باب الظهار أن على القاضي إلزام المظاهر بالتكفير دفعا للضرر عنها بحبس أو ضرب إلى أن يكفر أو يطلق وهذا ربما يؤيد القول المار بأنه تجب الزيادة عليه في الحكم فتأمل.
اسلام کے عائلی قوانین (مصنفہ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صاحب ) دفعہ (73) صفحہ 192 میں ہے:
شوہر کا حقوق زوجیت ادا نہ کرنا
ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے۔ حقوق زوجیت ادا نہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا ظلم ہے، اور رفع ظلم قاضی کا فرض ہے، نیز مذکورہ صورت میں عورت کا معصیت میں مبتلا ہونا بھی ممکن ہے، قاضی کا فرض ہے کہ ایسے امکانات کو بند کر دے۔ اس لئے اگر عورت قاضی کے یہاں مذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے تو قاضی تحقیق حال کے بعد لازمی طور پر رفع ظلم کرے گا اور معصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیدا کرے گا۔ مذہب مالکی میں بھی ترک مجامعت وجہ تفریق ہے۔
وسيأتي في باب الظهار أن على القاضي إلزام المظاهر بالتكفير دفعا للضرر عنها بحبس أو ضرب إلى أن يكفر أو يطلق وهذا ربما يؤيد القول المار بأنه تجب الزيادة عليه في الحكم فتأمل.(ردالمحتار،باب القسم 4/ 377)
حیلۂ ناجزہ صفحہ 72 میں ہے:
زوجہ متعنت کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کرلے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے کیونکہ ان کے نزدیک زوجہ متعنت کو تفریق کا حق مل سکتا ہے اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں :ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو۔اور دوسری صورت مجبوری کی یہ ہے کہ اگرچہ بسہولت یا بدقت خرچ کا انتظام ہو سکتا ہے لیکن شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلاء معصیت کا قوی اندیشہ ہو۔
خیر الفتاوی(581/4) میں ہے:
سوال:حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو یہ دستور بنایا تھا کہ مرد اپنی بیوی سے صرف چار ماہ علیحدہ رہ سکتا ہے کیا اس سے زیادہ اپنی بیوی سے علیحدہ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ ائمہ میں سے کسی کا مذہب ہے یا نہیں؟
الجواب:بلا عذر چار ماہ سے زائد علیحدہ نہیں رہنا چاہیئے، مالکیہ کے ہاں اگر بقصد اضرار اتنی مدت بیوی سے علیحدہ رہا تو وہ بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔
احکام القرآن لابن العربی (244/1) میں ہے:
قال علمائنا اذا امتنع من الوطئ قصدا للاضرار بالزوجة من غير عذر مرض او رضاع و ان لم يحلف كان حكمه حكم المولى و ترفعه الى الحاكم .
© Copyright 2024, All Rights Reserved