• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شوہر کے نان نفقہ نہ دینے پر عدالتی خلع کاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

***** کا نکاح 24-6-2013  کو ہوا تھا، لڑکا اس لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا، لڑکی کے والد نے رشتہ داروں کے پریشر میں آکر شادی کر دی، لڑکے کا لڑکی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں تھا، کئی مرتبہ لڑکی والدین کے گھر آتی رہی اور رشتہ دار دوبارہ مل ملا کر لڑکی کو واپس سسرال کے گھر چھوڑ دیتے۔ لڑکے نے ایک دفعہ بھی لڑکی کے والدین کے گھر جا کر نہیں کہا کہ میں اپنی بیوی کو لینے آیا ہوں یا میں اسے بسانا چاہتا ہوں کیونکہ لڑکی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، کئی بار لڑکے نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ میں مختار احمد لڑکی کا سگا ماموں ہوں، لڑکی کا شوہر میرا سالا ہے، بالآخر تنگ آکر ہم نے لڑکے سے کہا کہ تو اسے طلاق دے دے۔ لڑکے نے کہا کہ میں تو اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا، آپ لوگوں نے زبردستی کروایا ہے، اب میں طلاق نہیں دوں گا۔ تنگ آکر سب گھر والوں نے مشورہ کر کے لڑکی کو عدالت رجوع کرنے کا کہا۔ لڑکی نے خلع کا دعویٰ دائر کیا، عدالت نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ  سنا دیا ہے۔  اب گاؤں کے کچھ لوگ جو کہ پڑھے لکھے نہیں ہیں نہ عالم ہیں کہتے ہیں کہ اس طرح طلاق نہیں ہوتی۔ اس لیے میں حاضر ہوا ہوں رہنمائی فرمائی جائے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ

(1) سوال میں شوہر کی طرف سے بیوی پر تشدد ذکر کیا گیا ہے اس تشدد کی تفصیل بتائیں

(2) اگر شوہر خرچہ نہیں دیتا تھا تو بیوی کیسے گزر بسر کرتی تھی؟

جواب وضاحت:

(1) تین چار مرتبہ تھپڑ مارے ہیں لیکن ایسے نہیں مارا کہ نشان پڑ گئے ہوں۔

(2) لڑکی جب شوہر کے گھر رہتی تھی اس کے ماموں اس کو خرچہ دیتے تھے کیونکہ ان کی رہائش لڑکی کے گھر کے قریب ہے،اب اپنی والدہ کے پاس ہے اور آبائی زمینوں کا سالانہ ٹھیکہ آتا ہے اس سے خرچہ چلتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا (1) شوہر نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور (2) بیوی نے اپنا نان نفقہ معاف بھی نہیں کیا تھا اور (3) تنسیخ نکاح کی درخواست بھی اس وجہ سے دی تھی کہ اس کا شوہر اسے نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور (4) عدالت کے نوٹس  بھیجنے کے باوجود بھی شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا اور (5) عدالت نے تنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیا اور شوہر بیوی کی عدت گزرنے تک نان نفقہ دینے پر آمادہ نہیں ہوا تو ایسی صورت میں عدالت کا فیصلہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار ہو گا جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کو آگے نکاح کرنے کی اجازت ہو گی کیونکہ مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اختیار کیا ہے اور یک طرفہ خلع معتبر نہیں ہوتا مگر چونکہ مذکورہ صورت میں فسخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا تعنت ( استطاعت کے باوجود نان نفقہ ادا نہ کرنا) پایا جا رہا ہے لہذا عدالتی خلع مؤثر ہے۔

فتاوی عثمانی (2/462) میں ہے:

بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ درخواست برائے فسخ نکاح نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر دے اور جج اپنے فیصلے میں بھی اسی کو بنیاد بنا ئے،خلع کا طریقہ ہرگز اختیار نہ کرے اس لئے کہ یک طرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں۔ تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو یعنی شوہر کا تعنت ثابت ہو رہا ہو البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہوگا، تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔

حیلہ ناجزہ (ص:72 طبع دارالاشاعت) میں ہے:

زوجہ متعنت (جو باوجود قدرت کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے) کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کر لے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو الخ ”

تنبیہ: خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو یا اس کے عزیز و اقارب اس کا نفقہ برداشت کرنے پر تیار ہوں مالکیہ کے نزدیک یہ شرط نہیں، "حیلہ ناجزہ” میں اس شرط کے لگانے اور مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق نہ لینے کی وجہ عدم ضرورت بیان کی گئی ہے۔

چنانچہ حیلہ ناجزہ کے حاشیہ (72) میں ہے:

و هذا الحكم عندنا لا يختص بخشية الزنا و إفلاس الزوجة لكن لم نأخذ مذهبهم على الإطلاق بل أخذناه حيث وجدت الضرورة المسوغة للخروج عن المذهب.

ہم نے اپنے فتوے میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق لیا ہے کہ اب عدالتیں اپنے فیصلوں میں اس شرط کو (یعنی عورت کے حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش کی قدرت یا عورت کے عزیز و اقارب کے نفقہ برداشت کرنے کو) ملحوظ نہیں رکھتیں اور قضائے قاضی رافع للخلاف ہوتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved