- فتوی نمبر: 29-85
- تاریخ: 04 جون 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان عظام مذکورہ بالا مسئلے کے بارے میں کہ حافظ نذیر احمد کی زیر کفالت ایک یتیم نواسی ہیں جس کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے انکے والد صاحب کی موجودگی میں بچی کا نکاح بچی کے کزن سے غالباً 2015 میں ہوا تھا کچھ عرصہ بعد گھریلو معاملات اور وراثتی اختلافات کی وجہ سے حافظ نذیر احمد اور بچی کے ہونیوالے شوہر کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی بچی کے بالغ ہونے کے بعد جب رخصتی کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے رخصتی سے انکار کر دیا اور تاحال ان کا انکار برقرار ہے اور آئندہ بھی کوئی ظاہری آثار نظر نہیں آرہے کہ وہ رخصتی پر رضا مند ہو جائیں گے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ نہ تو ہم رخصتی کریں گے اور نہ ہی طلاق دیں گے تو مذکورہ صورت میں عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟اگر 3مرتبہ نوٹس بھیجنے کے باوجود شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوتا تو جج کا فسخ نکاح درست ہو گا یا نہیں؟
بیوی کا بیان:
میرا پندرہ سال کی عمر میں نکاح ہوا تھا اور میں چاہتی ہوں کہ رخصتی ہوجائے لیکن گھریلو معاملات کی وجہ سے شوہر رخصتی نہیں کررہا۔
نوٹ: شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے دارالافتاء کا پتہ ارسال کردیں میں خود آکر بیان دوں گا لیکن کئی دن انتظار کے بعد جب دوبارہ رابطہ کیا گیا تو شوہر نے کہا کہ میں بالکل نہیں آسکتا اور نہ میں کوئی بیان دوں گا۔ آب جو چاہیں فتویٰ جاری کردیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے اور اگر نوٹس بھیجنے کے باوجود شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوتا تو جج کا فسخ نکاح درست ہوگاکیونکہ شوہر نہ تو بیوی کو بسانے کے لیے تیار ہے اور نہ طلاق دینے پر آمادہ ہے بلکہ معاملے کو لٹکا کر رکھنا چاہتا ہے جو کہ ظلم ہے لہٰذا شوہر کے اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے عدالت کے ذریعے فسخِ نکاح درست ہوگا اور چونکہ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی اس لیے فسخ نکاح کے بعد بیوی پر عدت بھی نہ ہوگی جہاں چاہے نکاح کرسکے گی۔
اسلام کے عائلی قوانین (ص192)میں ہے:
’’ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بناکر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کیونکہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے ۔حقوق زوجیت ادا نہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کررکھنا ظلم ہے اور رفع ظلم قاضی کا فرض ہے‘‘
کفایت المفتی (298/5) میں ہے:
’’سوال: ہندہ منکوحہ کئی سال سے اپنے گھر بیٹھی ہے۔اس کا شوہر جو شرعاً بعدعقد ہوا ہے کسی شہر میں گوشہ نشین بنا بیٹھا ہے۔ جب رخصتی کا خط اس کے پاس جاتا ہے تو تاریخ مقررہ میں نہیں آتا بلکہ خود تاریخ معین کرتا ہے اور اس میں بھی نہیں آتا۔ ہم لوگ برابر منتظر رہے کہ آئے اور شادی ہو مگر کئی تاریخیں ٹل گئی ہیں۔اور یہ قصہ اب کا ہے، ورنہ اس سے قبل جب نکاح ہوا تھا دونوں یعنی ہندہ اور اس کا شوہر نابالغ اورنابالغہ تھے۔ ماں باپ کی خوشی پر بچے نے ایجاب و قبول کیا تھا۔ اور باپ کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ میرے کچھ اختیارات ان پر ہیں رخصت کیونکر ہوگی اوربچی غریب کا کیا حال ہوگا۔ کچھ شرعی طریقہ ایسا فرمایئے ، یا ایسا حکم خاص صادر فرما دیں جس سے بچی ہندہ کی داد رسی ہوسکے۔ ۔۔۔۔الخ
جواب (۴۸۹): اگر عورت کے لئے گزارے اور حفظ عصمت کی کوئی صورت نہیں ہے اور خاوند ان امور کی پرواہ نہیں کرتا تو عورت کو حق ہے کہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت سے اپنا نکاح فسخ کرائے۔ ۔۔۔۔۔۔(محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ، دہلی)‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved