• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے تعنت کی وجہ سے یکطرفہ عدالت فیصلہ

استفتاء

میں سولہ سال کی تھی جب میری شادی ہوئی، میرے شوہر نے شادی کے ایک سال کے بعد ہی کام کرنا چھوڑ دیا، سال میں دو چار ماہ کام کر لیتے اور کبھی اتنا بھی نہیں، زیادہ دیر فارغ ہی رہتے، اسی طرح بارہ سال گذر گئے، اس دوران میرے ہاں تین بچے ہوئے، کبھی ہمیں وہ میکے رہنے کے لیے چھوڑ آتے اور کبھی سسرال واپس لے آتے زیادہ تر مجھے میکے ہی میں رہنا پڑتا بلکہ میرے شوہر کی کوشش ہوتی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ وہی رہیں، آخر میرے والدین تنگ آگئے کہ اس نام کے شوہر کا کیا فائدہ کبھی میکے رہتی ہو کبھی سسرال میں، اس طرح تمہارے بچوں کی تعلیم خراب ہو رہی ہے، تم مستقل یہاں رہو تاکہ تمہارے بچے تعلیم حاصل کر سکیں اور شوہر کا داخلہ ہمارے گھر سے بند کرو، میرے دیور اور ماموں سسر نے بھی یہی مشورہ دیا، پھر میں مستقل چار سال میکے میں رہی، لیکن اس کے باوجود بھی ٹک کر کام نہ کیا، اس دوران وہ صلح کی کوشش بھی کرتا رہا، ہمارے رشتہ داروں نے میرے والدین کو مشورہ دیا کہ یہ ابھی جوان ہے، قانونی طور پر خلع لو اور اس کی دوسری شادی کر دو، جامعہ نعیمیہ سے فتویٰ لیا تو انہوں نے کہا کہ عدالتی طور پر خلع لے کر آپ اپنی بیٹی کی دوسری شادی کر سکتے ہیں، میرے والدین نے صرف میرے شوہر کو بلایا اور کہا کہ تم ٹک کر کام کر ہم چار پانچ ماہ دیکھتے ہیں کہ تم کام کرتے ہو تو اپنے بیوی بچوں کو لے جاؤ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہم قانونی کاروائی کریں گے، جس کے لیے ایک تحریر لکھی جو اس نے پھاڑ دی کہ میرا گھر خراب ہوا تو میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، پھر میرے والدین نے عدالت میں کیس دائر کر دیا، نو ماہ تک کیس چلا لیکن وہ اس دوران ایک دفعہ بھی حاضر نہیں ہوا، عدالت نے یکطرفہ کاروائی کرتے ہوئے تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کر دی، اس کے بعد یہ کیس تین ماہ تک یونین کونسل میں چلا لیکن وہ وہاں بھی حاضر نہیں ہوا، وہاں سے بھی تنسیخ نکاح کا سرٹیفیکیٹ جاری ہو گیا۔ میرا  سوال یہ ہے کہ تنسیخ نکاح کی صورت میں عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟ جبکہ وہ شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے اسے طلاق نہیں دی، میں نے فتویٰ لیا ہے کہ وہ اب بھی میری بیوی ہے، جبکہ میں صائمہ اقرار کرتی ہوں کہ یہ تنسیخ نکاح میری مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے ہوا۔

نوٹ: فیصلہ 2008ء کو ہوا تھا، اس کے بعد تین ماہواریوں سے زیادہ وقت گذر چکا ہے۔ خاوند فیصلے سے پہلے بھی میرے سے جدا تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تنسیخ نکاح کا منسلکہ فیصلہ اگرچہ خلع کی بنیاد پر ہے اور خلع یکطرفہ معتبر نہیں ہوتا، لیکن مذکورہ صورت میں فسخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا تعنت (نان نفقہ نہ دینا) پایا جا رہا ہے، اس لیے یہ فیصلہ معتبر ہے اور نکاح ختم ہو گیا ہے۔ (بحوالہ فتاویٰ عثمانی)

مذکورہ صورت میں چونکہ عدت بھی گذر چکی ہے، اس لیے عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved