• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

  شوہر کے تشدد کی وجہ سے خلع لینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر مجھے دو طلاقیں دے چکے ہیں، پہلی طلاق 11 فروری 2021 ء کو میرے  سسر ، دیور، ساس اور نند کے سامنے دی تھی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں اپنے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اس طلاق کے بعد ہم میاں بیوی کی طرح رہتے رہے اور رجوع ہو گیا، دوسری طلاق 12 جون 2021ء کو بڑے دیور ، دیورانی اور نند کے سامنے دی  تھی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘    دوسری طلاق کے بعد ایک مہینے تک میں گھر میں رہی لیکن اس دوران میرے شوہر نے مجھے کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا کیونکہ ہماری ناراضگی چل رہی تھی، ہماری شادی کو سات سال ہو چکے ہیں، ان سات سالوں میں میرے شوہر نے کئی مرتبہ مجھ پر تشدد کیا اور کئی بار اتنا  مارتے تھے کہ خون نکل آتا تھا، گالم گلوچ کرتے تھے اور میکے جانے سے بھی روکتے تھے، اب انہوں نے بچوں کو مار پیٹ کرنا شروع کر دیا ہے، مجھ میں اور برداشت نہیں ہے، میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، لہذا راہنمائی فرمائیں کہ (1) مذکورہ صورت میں کونسی طلاق واقع ہوئی ہے؟ رجعی یا بائنہ؟ اور ہمارا نکاح باقی ہے یا ختم ہو گیا ہے؟  (2)اگر نکاح ختم نہیں ہوا تو  کیا میرے لیے خلع لینا جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:

خلع سے کیا مراد ہے ؟ شوہر  کو پیسے وغیرہ دے کر اس سے خلع لینا چاہتی ہیں یا عدالتی خلع لینا ہے؟

جواب وضاحت: خلع کے بارے میں شوہر سے بات کرنی ہے ابھی تک  بات نہیں ہوئی لیکن اگر وہ راضی نہ ہو تو کیا میں عدالتی خلع لے سکتی ہوں؟

شوہر کا بیان حلفی:

بیان ازاں مسمی****سکنہ مکان نمبر 636 لاہور کا رہائشی ہوں اور بقائمی ہوش و حواس خمسہ و ثبات عقل بلاجبر و اکراہ  یہ تحریر کر دیتا ہوں کہ میں حلفا بیان کرتا ہوں من محلف کی بیوی نے من محلف کی والدہ کے ساتھ جھگڑا کیا تو دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، من محلف کے والد اس وقت کراچی گئے ہوئے تھے۔ جس دن من محلف کے والد کراچی سے واپس آئے تو انہوں نے جھگڑے کے بارے میں من محلف کی والدہ اور بیوی سے پوچھا تو دونوں نے اپنا اپنا موقف بیان کیا، من محلف بھی اس وقت موجود تھا، من محلف اس وقت اپنی بیوی کی حمایت میں ہی کھڑا تھا، یہ کہ جب من محلف کی بیوی نے من محلف کی والدہ کو نازیبا الفاظ بولے تو من محلف نے اپنی بیوی کو خاموش ہونے کا کہا لیکن من محلف کی بیوی خاموش نہیں ہو رہی تھی اور نازیبا الفاظ بول رہی تھی جس پر من محلف طیش میں آ گیا اور اپنی والدہ کی توہین برداشت نہ کر سکا تو من محلف نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی، اور غصے میں مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں، اور کوئی خلاف عادت کام نہیں کیا تھا، یہ11 فروری 2021ء  کا واقعہ ہے، اور یہ کہ اب جون میں دوبارہ لڑائی جھگڑا ہوا تو میرا بھائی حافظ**، میری بھابھی***اور میری بہن **انتخاب میرے ساتھ موقع پر موجود تھے جبکہ میں بہت زیادہ غصے میں تھا اور میرا بلڈپریشر ہائی تھا میں غصے میں دیواروں پر مکے مار رہا تھا اور میری بیوی مسلسل بدزبانی کر رہی تھی تو من محلف نے اپنی بیوی کو کہا تھا کہ ’’میرے سامنے سے چلی جاؤ ورنہ میں طلاق دے دوں گا‘‘ اس واقعے کے بعد من محلف بےہوش ہو گیا تھا اور میری بیوی نے ہی میرے منہ میں پانی ڈالا اور چینی کھلائی اور مجھے ہوش دلایا تھا اور دوائی کھلائی تھی اور واش روم بھیجا تھا،  اس کے بعد ہم خوش و خرم زندگی بسر کرتے رہے۔ یہ کہ اب میری بیوی بلاوجہ الزام لگا رہی ہے جب کہ میں نے دوبارہ کوئی طلاق نہیں دی ہے۔ یہ کہ نہ تو من محلف  اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے  اور نہ ہی طلاق دوں گا، یہ کہ من محلف نے بیان حلفی باہوش و حواس تحریر کروا دیا ہے۔ یہ کہ میں نے یہ بیان اللہ تعالی کو حاضر ناظر  جان کر تحریر کروایا ہے جس کے گواہ میرے گھر والے موجود ہیں، مذکورہ بالا تحریر میرے بہترین  علم و یقین کے مطابق درست ہے اس میں کوئی بات پوشیدہ نہ رکھی گئی  ہے اگر کوئی بات پوشیدہ ثابت ہوئی تو من محلف اس کا ازخود ذمہ دار ہوں گا۔

نیز میں بیوی کو اس کی بدزبانی اور بدتمیزی کی وجہ سے مارتا تھا، لیکن اب میں اسے بسانا چاہتا ہوں، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ نہیں ماروں گا، کیونکہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ میری آنکھوں کے سامنے رہیں ۔

نوٹ: شوہر نے اپنے بھائی، بھابھی اور بہن کا بیان ریکارڈ کر کے بھیجا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جون والے واقعہ میں شوہر نے یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’میں طلاق دے دوں گا‘‘

بیوی کا مکرر بیان:

مجھے شوہر کے بیان سے اتفاق ہے، جون میں جب انہوں نے غصے میں طلاق دی تو ان کا بلڈپریشر بہت ہائی تھا، اور وہ دیواروں اور دروازوں میں مکے مار رہے تھے، لیکن طلاق کے الفاظ یہی تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اور اس کے تقریبا پندرہ منٹ بعد وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں فروری  2021ء میں جب شوہر نے یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’میں اپنے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘   تو ان الفاظ سےایک رجعی طلاقیں واقع ہو گئی تھی پھر چونکہ اس طلاق کے بعد میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے لہذا رجوع ہو گیا اور نکاح  باقی رہا، اور جون 2021ء  کے واقعہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

(2)  چونکہ آپ کے شوہر نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ وہ آپ پر اور بچوں پر تشدد نہیں کرے گا اور گھر کو بسانے کی کوشش کرے گا   لہذا آپ بھی اپنا گھر بسانے کی کوشش کریں،  اور اگر شوہر اپنا رویہ درست نہ کرے اور تشدد کرنے سے باز نہ آئے    تو آپ عدالت میں تشدد کی بنیاد پر فسخ نکاح کی درخواست دے کر نکاح فسخ کروا سکتی ہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب جون   میں شوہر نے یہ الفاظ کہے کہ ’’میرے سامنے سے چلی جاؤ ورنہ میں طلاق دے دوں گا‘‘ تو چونکہ یہ انشاء طلاق کے الفاظ نہیں بلکہ وعدہ طلاق کے الفاظ ہیں، اور وعدہ طلاق سے طلاق واقع نہیں ہوتی، لہذا مذکورہ الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر بیوی کی بات تسیلم کر لی جائےکہ شوہر نے یہ کہا تھا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو پھر بھی ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ شوہر نے جب  یہ الفاظ کہے تھے تو غصے کی وجہ سے اس کے ہوش وحواس قائم نہیں تھے اور اس سے خلاف عادت افعال  دیوار اور دروازے میں مکے مارنا صادر ہو رہے تھے، اور غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

عالمگیری (1/470) میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.فتاوی شامی (4/439) میں ہے:قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله…. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر. (قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة وتكون بائنة كما في عبق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved