- فتوی نمبر: 19-7
- تاریخ: 24 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نکاح کی تاریخ: 12 دسمبر 2018ء۔ اولاد: ایک بیٹا۔
20 اپریل 2018ء کو لڑکی اپنے شوہر کے گھر سے واپس آگئی تھی، اور تین مہینے بعد جولائی 2018ء کو خلع کے لیے کیس کیا۔ کورٹ سے خلع 31 جنوری 2019ء کو موثر ہوئی۔ جس کے بعد لڑکی نے عدت نہیں کی۔ لڑکے نے نہ ہی کسی خلع یا طلاق نامے پر دستخط کیے ہیں اور نہ ہی زبانی کلامی طلاق کا لفظ منہ سے کہا ہے۔
1۔کیا ان حالات کے پیش نظر دونوں میں طلاق ہو چکی ہے؟
2۔ اگر طلاق نہیں ہوئی تو کیا طلاق دلوانے کے بعد لڑکی پر عدت گذارنا عائد ہوتا ہے؟
3۔ کیا خلع کے بعد لڑکی دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے؟
لڑکے کا نام منصور ہارون ہے، اور لڑکی کا نام فلک امجد ہے۔
وضاحت مطلوب ہے کہ
خلع کی درخواست میں شوہر کے نان نفقہ نہ دینے کا ذکر ہے کیا خلع کی درخواست اسی وجہ سے دی گئی؟
جواب وضاحت:
درخواست میں خرچہ نہ دینے کا ذکر ہے لیکن میرے شوہر مجھے خرچہ دیتے تھے، خلع کی درخواست اس وجہ سے دی کہ وہ بدزبان ہیں، طعنے دیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، مجھے اور میرے والدین کو برا بھلا کہتے ہیں،لیکن مجھے کبھی مارا نہیں، تشدد نہیں کیا،صرف ان کی بدزبانی کی وجہ سے میں نے خلع لیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شوہر کا بدزبان ہونا ان امور میں سے نہیں جو شرعی طور پر فسخ نکاح کی بنیاد بن سکتے ہیں،چونکہ مذکورہ صورت میں
شوہر کی بدزبانی کی وجہ سےآپ نے فسخ نکاح درخواست دی تھی لہذا مذکورہ صورت میں فسخ نکاح معتبر بنیاد موجود نہ ہونے کی وجہ سے یکطرفہ عدالتی خلع مؤثر نہیں ہوا اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
بدائع الصنائع(3/229) میں ہے:
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
© Copyright 2024, All Rights Reserved