• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کی وفات کے بعد بیوی کا وراثت میں حصہ

استفتاء

میں ***دختر*** مرحوم اور زوجہ*** ولد دوست*** ہوں،میرے شوہر ڈیڑھ سال پہلے2021میں وفات پا گئے،میراپانچ  تولے سونا نکاح نامے میں لکھا ہوا ہے،نکاح نامہ اب بھی میرے پاس موجود ہے،میرے شوہر نے مجھے سات تولہ سونا دیا تھا،جس میں سے پانچ تولے سونا حق مہر تھا اور دو تولے ہدیہ میں دیا تھا،یہ سونا میرے شوہر سمیت سسرال والوں نے دیا تھا،اس کے علا وہ مجھے تقریبا پندرہ لا کھ کا سامان جہیز میں دیا تھا لیکن سسرال والے اب یہ سامان نہیں دے رہے،میری شادی سے پہلے ہی میرے شوہر کے والدین وفات پا گئے تھے،جن میں سے پہلے میری ساس کا نتقال ہوا،پھر ان کے ایک بیٹےکا انتقال ہواجس کے ورثاء میں اس کی بیوی ،ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے،اس کے بعد سسر کا انتقال ہوا،سسر اور ساس کے انتقال کے وقت ان کے والدین میں سے کوئی بھی حیات نہیں تھا،میرے دودیور بھی والدین سے پہلے وفات پاگئے تھے، جبکہ میرے شوہر والدین کی وفات کے بعد فوت ہوئے تھے،باقی دو دیور اور چار نند یں موجود ہیں،اب پوچھنا یہ ہے کہ 1۔میرے ساس سسر کی جائیداد میں میرا حصہ بنتا ہے؟ جبکہ میری کوئی اولاد نہیں ہے۔

2۔شوہر نے مجھے جو سونا دیا تھا میرے دیور اور نندیں اسے مجھ سے مانگ رہے ہیں اور مجھے دھمکیاں دے رہے ہیں،تو کیا یہ سونا ان کو دینا ضروری ہے؟

3۔میرے جہیز کا سامان جو سسرال والوں کے پاس ہے شرعا سسرال والوں کے ذمہ اس کا واپس کرنا بنتا ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔آپ کا اپنے شوہر کے واسطے سے ساس سسر کی جائیداد میں حصہ بنتا ہےاور آپ کے شوہر کی جائیداد میں سے بھی آپ کا حصہ بنتا ہے،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

ساس کی وراثت کی تقسیم:

ساس کی وفات کے وقت موجود ان کے کل ترکہ کے 23040 حصے کئے جا ئیں گے،جن میں سےان کے دونوں (حیات) بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو4902حصے (21.276فیصد فی کس) اور ان کی چاروں بیٹیوں میں سے ہربیٹی کو 2451 حصے (10.638فیصد فی کس) ملیں گے،جبکہ ساس کے انتقال کے بعد جس بیٹے کا انتقال ہوا تھا اس کی بیوی کو 360حصے (1.562فیصد) اور اس کے بیٹے کو1360حصے (5.902فیصد) اور اس کی بیٹی کو680حصے (2.951فیصد) ملیں گے،اورسسر کی وفات کے بعد فوت ہونے والے بیٹے کی بیوی یعنی آپ کو1032حصے (4.479فیصد)   ملیں گے۔

سسر کی وراثت کی تقسیم:

سسر کی وفات کے وقت ان کے کل ترکہ کے160حصے کئے جائیں گئے،جن میں سے ان کی چاروں  بیٹیوں میں سے ہر ایک کو19حصے(11.875فیصد فی کس) اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو38حصے(23.75فیصد فی کس) ملیں گے،جبکہ سسر کے بعد فوت ہونے والے بیٹے کی بیوی یعنی آپ کو8حصے (5فیصد) ملیں گے۔

شوہر کی وراثت کی تقسیم:

آپ کے شوہر کی وفات کے وقت جو ان کا ترکہ تھا اس کے کل 32حصے کئے جا ئیں گے،جن میں سے آپ کو 8حصے (25فیصد) ، ان کے دونوں بھائیوں میں سے ہربھائی  کو 6حصے (18.75فیصد فی کس) اور ان کی چاروں بہنوں میں سے ہر بہن کو 3حصے(9.375فیصد فی کس) ملیں گے۔

2۔حق مہر کا سونا دینا تو ضروری نہیں باقی جو دو تولے سونا ہدیہ دیا تھا تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر آپ کے دیور اور نندیں بھی اس ہدیہ کو تسلیم کرتے ہیں یا آپ کے پاس ہدیہ ہونے کا کوئی قابل اعتبار ثبوت موجود ہے تویہ سونا دینا بھی ضروری نہیں اور اگر آپ کے دیور اور نندیں اس ہدیہ کو تسلیم نہیں کرتے اور آپ کے پاس اس سونے کے ہدیہ ہونے پر کوئی قابل اعتبار ثبوت بھی نہیں تو پھر یہ دو تولے سونا دینا ضروری ہے، تاہم آپ اپنے جہیز کے سامان کے پیش نظر یہ سونا نہ دینا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے۔

3۔جہیز کا سامان آپ کی ملکیت ہے لہذا سسرال والوں کے ذمے ہے کہ وہ یہ سامان واپس کریں۔

نوٹ:یہ جواب ایک فریق کے بیان پر ہے، اگر دوسرے فریق کا بیان اس سے مختلف ہوا تو ہمارا جواب کالعدم ہوگا۔

مشکوۃ المصابیح(رقم الحدیث:3769) میں ہے:

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: ” «‌البينة ‌على ‌المدعي، واليمين على المدعى عليه» ” رواه الترمذي

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما فرماتےہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:’’گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے“۔

رد المختار(4/300) میں ہے:

قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها ‌قبل ‌الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا

فتاوی عالمگیری(1/327) میں ہے:

‌وإذا ‌بعث ‌الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية

رد المختار(4/95) میں ہے:

والفتوى اليوم على ‌جواز ‌الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved