- فتوی نمبر: 1-348
- تاریخ: 04 فروری 2008
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسماة ***کا نکاح 1999- 9- 17 کو ہمراہ مسمی***کے ساتھ ہوا۔ جن سے دو بچے***اور*** ہوئے۔ اس کے بعد مورخہ 2001-2- 18 کو گھر سے کوریا بسلسلہ ملازمت روانہ ہوا۔ لیکن اس کے بعد تاحال اس کی طرف سے کوئی رابطہ کوئی فون اور کوئی خرچہ وغیرہ موصول نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی اتہ پتہ معلوم ہوسکا حتی کہ اس کے گھر والوں کو بھی اس کا علم نہیں ہے۔ پھر تقریباً پانچ سال ایک ماہ بعد عدالت سے رجوع کیا گیا تاکہ اس کے بارے میں کچھ کیا جاسکے عدالت نے اس پر نوٹس بھیجے، اشتہارات بذریعہ اخبارات وغیرہ بار بار دیتے اور حاضر ہونے کے لیے اس کے گھر اور اخبارات میں اشتہارات دلواتے اور یہ کیس تقریباً ایک سال ایک ماہ چلتا رہا لیکن ***کی طرف سے کوئی اتہ پتہ نہ چل سکا اور نہ ہی حاضری ہوئی اور نہ ہی اس کے گھر والوں کو علم ہوسکا۔ اس لیے 07- 2- 23 کو عدالت نے تنسیخ نکاح کردیا اور یک طرفہ ڈگری جاری کردی اور اس فیصلہ کو عرصہ ایک سال بارہ دن ہونے والے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق مسماة *** کو شرعاً طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ وہ آگے کسی اور سے نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟ جبکہ خاوند غائب ہوئے سات سال ایک ماہ ہوگیا ہے۔ عدالت کا فیصلہ آئے بھی ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ اگر عورت کسی اور سے نکاح کرلے تو اس کے بعد پہلا خاوند آجائے تو کیا کرنا ہوگا؟ اگر دوسرے خاوند سے اولاد ہو جائے تو پہلے خاوند کے آنے پر وہ اولاد کس کی شمار ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مسماة *** کی درخواست جو عدالت میں پیش کی گئی وہ شوہر کے لاپتہ ہونے کی ہے جبکہ عدالت نے زوجین کے درمیان نفرت کو بنیاد بنا کر خلع کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کا فیصلہ دیا ہے جو از روئے شریعت باطل ہے۔
اگر عدالت صحیح فیصلہ دینے پر راضی نہ ہو تو علماء کا ایک بورڈ تحقیق کر کے اگر شوہر کو مفقود الخبر پائے تو اپنا فیصلہ دے۔ اس میں حسب حالات ایک سال یا چار سال کی مہلت دے۔ اس کے بعد عورت پھر وفات کی عدت گذارے۔ پھر دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
اگر پہلا شوہر بعد میں کسی وقت آجائے تو عورت کا وہی حقدار ہوگا۔ جو اولاد دوسرے شوہر سے ہوگی وہ دوسرے شوہر کی ہوگی۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved