• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے طلاق کی نیت سے سسر سے کہا ’’تیری بیٹی کو ایک دو تین‘‘  تو طلاق ہوگئی یا نہیں؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے عقدِ نکاح میں میری چچا زاد بہن ہے شادی کے تقریبا دو سال بعد چچا کے ساتھ کسی وجہ سے جھگڑا ہوا تو غصہ میں میں نے طلاق کی نیت سے کہا کہ ’’تیری بیٹی کو ایک دو تین‘‘ تو چچا نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا، آپ پتھر اٹھا کر پھینکیں، میں نے دو پتھر پھینکے تیسرا نہیں پھینکا۔ اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟۔۔۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: شوہر کے یہ الفاظ کہ ’’ایک، دو، تین‘‘ ان کی اصل وضع طلاق کے لیے نہیں بلکہ گنتی اور کسی چیز کو شمار کرنے کے لیے ہے اور یہ گنتی طلاق کی بھی ہوسکتی ہے اور کسی اور چیز کی بھی ہوسکتی ہے لیکن جب شوہر نے بیوی کی طرف نسبت کرکے ’’ایک، دو، تین‘‘ کہا اور نیت سے طلاق کی گنتی متعین کردی تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

خلاصۃ الفتاویٰ (2/98) میں ہے:

وفي الفتاوى رجل قال لامرأته ترا يكي وترا سه او قال تو يكي تو سه قال أبو القاسم الصفار رحمه الله لا يقع شيئ وقال الصدر الشهيد رحمه الله يقع إذا نوى قال وبه يفتى

شامی (4/524) میں ہے:

وذكر في الفتح هناك: لو قال أنت بثلاث وقعت ثلاث إن نوى لأنه محتمل لفظه، ولو قال لم أنو لا يصدق إذا كان في حال مذاكرة الطلاق لأنه لا يحتمل الرد وإلا صدق

ہندیہ (1/357) میں ہے:

ولو قال أنت بثلاث وقعت ثلاث إن نوى ولو قال لم أنو لا يصدق إذا كان في حال مذاكرة الطلاق وإلا صدق ومثله بالفارسية توبسه على ما هو المختار للفتوى

فتاویٰ محمودیہ (12/463) میں ہے:

’’سوال : زید نے اپنی زوجہ ہندہ سے کچھ اَن بَن ہونے پر اس کی مار پیٹ کی، بعد یہ کہا کہ ایک دو تین، اس کے کچھ دیر بعد زید اپنی ماں سے کہنے لگا کہ اس کو اس کے میکہ پہنچادو، اس کی ماں نے کہاکہ اچھا کل پہنچادوں گی، اس واقعہ کے تین روز گذرنے کے بعد ہندہ کا والد کسی ضرورت سے ہندہ کے گاؤں میں پہنچا تو اس کو وہاں کسی آدمی کی زبانی یہ بات معلوم ہوئی ہندہ کے والد نے زید کو تخلیہ میں بلا کر گفتگوکی اور پوچھا کہ تم نے ہندہ کو طلاق دیدی، توزید خاموش ہوگیا، پھر اصرار کر نے پر زید نے ’’ہاں‘‘ کہا، بات کلیر ہے ،تو اب حکمِ شرع کیا ہے؟

الجواب حامداً ومصلیاً: لفظ ’’ایک دو تین‘‘ اصالۃً طلاق کیلئے موضوع نہیں بلکہ گنتی کیلئے موضوع ہے، جس سے طلاق کی گنتی بھی مراد لی جاتی ہے اور غیر طلاق کی بھی اور عامۃً تو اس کا معدود بھی ذکر کیا جاتا ہے، اور کبھی کبھی قرینہ مقام کے لحاظ سے صرف ذکرِ عدد پر کفایت کی جاتی ہے، معدود کو مخاطب بغیر ذکر کئے سمجھ جاتا ہے، اور کبھی یہ کسی کام کو پختہ کرنے اور انتہا تک پہنچانے کیلئے بھی بولا جاتا ہے، مثلاً نیلام کی جب بولی ختم کرنا ہو تو ایک دو تین بول دیتے ہیں، یا کسی کام کو شروع کرنے کیلئے ایک دو تین بول دیتے ہیں، پس اگر زید نے اس لفظ ’’ایک دو تین‘‘ سے یہ مراد لیا ہے کہ میں نے بیوی کو ایک دو تین طلاق دیدی تو طلاق مغلظہ ہوگئی، اور ایسا کہنے کے بعد بیوی کو میکہ بھجوا دینا اور خسر کے باصرار دریافت کرنے پر ’’کہ کیا تم نے ہندہ کو طلاق دیدی الخ‘‘ یہ کہنا کہ ہاں بات صاف کلیر ہے، تو قرینہ ہے کہ زید کی مراد طلاق ہی ہے، بلکہ خسر کو جو کچھ جواب دیکر اقرار کیا اس سے تو مراد واضح ہوگئی: لو قال لا مرأته  انت بثلاث قال ابن الفضیل اذا نوی یقع……… ولو قال انت منی ثلاثاً طلقت ان نوی او کان فی مذاکرة الطلاق………. قوله: بثلاث دل علی عدد طلاق مقدر نواه المتکلم. اه شامی ص:۴۴۸، ج:۲،[4/485] (قبل طلاق غیرا لمدخول بها بثلاثة اوراق) فقط والله تعالی أعلم‘‘

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل: فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved