• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے یونین کونسل میں طلاق کی درخواست جمع کروائی، یونین کونسل کے دو نوٹس بھیجنے کے بعد درخواست واپس لے لی تو کیا نکاح ختم ہوگیا؟

استفتاء

میں لاہور میں رہتا ہوں، میری شادی 2001ء میں ہوئی  تھی ۔ اس شادی سے ہمارے  دو بیٹے بھی ہیں، آپس کی ناچاقیوں کی وجہ سے  میں نے اپنی بیوی کو جولائی  2016ء کو اس کے گھر والوں کے پاس بھیج دیا۔اور اس کے بعد  30/7/2016 کو یونین کونسل میں  طلاق  کی درخواست جمع کروا دی  جس پر تین طلاق لکھی تھیں، یہ درخواست یونین کونسل  کی فارمیٹ پر بنی تھی۔وہ کاغذ دفتر کے ریکارڈ میں ہی رہا۔میں نے اپنے منہ سے یا لکھ کر  اپنی بیوی یا اس کے گھر والوں کو کبھی طلاق نہیں بھیجی۔ قانونی لحاظ سے 27/8/2016 کو طلاق کا پہلا  نوٹس میری بیوی کو ملا۔اس کے بعد دوسرا نوٹس19/9/2016 کو ملا۔دو نوٹس کے بعد  میں نے 29/9/2016 کو اپنی  طلاق کی درخواست یونین کونسل دفتر سے واپس لے  لی اور  مقدمہ خارج ہوگیا، جس کی اطلاع  میں نے اپنی بیوی کو  فون پر دے دی۔ لیکن میں نے  اپنی بیوی سے  واپس آنے کے لئے  جنوری 2018ء  میں رجوع کیا جس پر اس نے آنے سے انکار کر دیا ۔اب وہ آنے پر  راضی ہے  اور میرے بچے بھی آنے پر راضی ہیں  ۔کیا میری بیوی میرے نکاح میں ہے یا نہیں؟  یا نکاح دوبارہ کروانے کا حکم ہے؟ اس مسئلے  میں آپ کی رہنمائی چاہیے۔ مذکورہ کاغذات کی تصاویر ارسال کردی ہیں۔

طلاقنامہ کی عبارت:

’’۔ لہٰذا من مظہر بخوشی برضامندی خود اپنی جانب سے اپنی بیوی مسماۃ فائزہ رابعہ عارف کو سہہ مرتبہ طلاق طلاق طلاق (طلاق ثلاثہ) دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں، اپنے بچوں کو شفقت مادری کی وجہ سے مسماۃ مذکوریہ کے حوالے کردیا ہے ۔۔۔۔الخ‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں تین طلاقوں والی درخواست جو آپ نے یونین کونسل میں جمع کروائی تھی وہ باقاعدہ طلاقنامہ تھا جس میں تینوں طلاقیں بلا کسی شرط کے لکھی تھیں لہٰذا جب آپ نے اس کو پڑھ کر دستخط کیے تھے اسی وقت طلاقنامے کی اس عبارت سے کہ ’’ من مظہر بخوشی برضامندی خود اپنی جانب سے اپنی بیوی مسماۃ ** کو سہہ مرتبہ طلاق طلاق طلاق (طلاق ثلاثہ) دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں‘‘ تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں۔ اور طلاق جب واقع ہوجائے تو واپس نہیں ہوتی اس لیے بعد میں یونین کونسل کے دو نوٹس بھیجنے کے بعد آپ کے درخواست واپس لینے سے واقع شدہ طلاق ختم نہیں ہوئی۔نیز  اس طلاقنامے کا بیوی تک پہنچنا ضروری نہیں کیونکہ طلاق دینے کا حق شوہر کو ہوتا ہے لہٰذا اگر شوہر بیوی کے علم میں لائے بغیر بھی زبان سے یا تحریر سے طلاق دے دے تو واقع ہوجاتی ہے۔ (لانه في ايقاع الطلاق هو مستبد به. مبسوط 6/27)تبیین الحقائق (6/218) میں ہے:ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم وهو أن يكون معنونا أي مصدرا بالعنوان وهو أن يكتب في صدره من فلان إلى فلان على ما جرت به العادة في تسيير الكتاب فيكون هذا كالنطق فلزم حجةبدائع الصنائع  (3/174) میں ہے:إن كتب على الوجه المرسوم ولم يعلقه بشرط بأن كتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق وقع الطلاق عقيب كتابة لفظ الطلاق بلا فصل

رد المحتار (4/443) میں ہے:وفي التتارخانية:.. ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابهبدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved