• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سیاہ خضاب کے متعلق چند سوالات

استفتاء

1۔کیا زینت یا بڑھاپا چھپانے کےلیے بالوں یا داڑھی  پر بلیک کلر (کالا خضاب) لگانا جائز ہے ؟(2)اگر جائز ہے تو کن حالات میں؟  (3)کیا کوئی ایسی روایات موجود ہیں جن میں بلیک کلر (کالاخضاب) کرنے کی اجازت ہو یا حضورﷺ نے کسی کو کہا ہو اور اگر ہیں تو ان کی اسنادی حیثیت کیسی ہے؟(4)بعض احباب یہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺنے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ان کے والد کےبارے میں کہاکہ آپ ان کے بال سیاہ کریں اوربعض احباب سے جب کہا کہ سیاہ خضاب جائز نہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ طارق جمیل صاحب بلیک کلر (کالاخضاب) لگاتے ہیں وہ بڑے عالم ہیں وہ زیادہ جانتے ہیں۔

احادیث اورائمہ اربعہ کی فقہ سے اس مسئلہ کا جواب عنایت فرمائیں

مبشر آفتاب۔باغ آزاد کشمیر

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔       راجح قول کے مطابق سر یا داڑھی کے بالوں کو   زینت یا بڑھاپا چھپانے کی غرض سے بلیک کلر (کالاخضاب) لگانا ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے۔

2۔       صرف مجاہد کے لیے گنجائش ہے وہ بھی تب جب دشمن پر رعب ودبدبہ ڈالنا مقصودہو اور جہاں اس کی ضرورت نہ ہو وہاں مجاہد کے لیے بھی جائزنہیں ۔

3۔       بعض روایات  میں سیاہ خضاب کاتذکرہ ملتا ہے  لیکن اولاً تو وہ  روایات محدثین کے نزدیک  ضعیف ہیں  اور ثانیاً  ان روایات میں سیاہ خضاب سے مراد خالص سیاہ نہیں بلکہ وہ سیاہ مراد ہے جو سرخی مائل ہو یا جہاد میں لگانا مراد ہے۔

4۔       حضور اکرمﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد کے  بالوں کو سیاہ کرنے  کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ سیا کرنے سے منع کیا تھا۔چنانچہ ’’حضرت جابر ؓفرماتے ہیں کہ حضرت ابوقحافہؓ فتح مکہ کےروز آپ ﷺ کی خدمت میں لائے گئے ان کے سر اورداڑھی کےبال ثغامہ (گھاس )کی طرح سفید تھے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کی سفیدی  کو کسی چیزسے تبدیل کردو لیکن سیاہ رنگ سے اجتناب برتو‘‘۔(مسلم(6/155)، ابوداود(1/137)،نسائی،ماخوذ احسن الفتاویٰ(8/363) )

رہا مولانا طارق جمیل صاحب کا معاملہ تو اگر وہ سیاہ خضاب لگاتے بھی ہوں تو ان کا عمل شرعی دلیل نہیں۔

1۔عن ابن عباس قال قال رسول ﷺ قال :يکون قوم في آخرالزمان يخضبون بهذالسواد کحواصل الحمام لايريحون رائحة الجنة (ابوداود،نسائي ،احمد،ابن حبان، ماخوذ از احسن التفاويٰ(8/363))

عن ابي الدرداء مرفوعا ..من خضب بالسواد سود الله وجهه يوم القيامة . رواه الطبراني وابن ابي عاصم (کنزالعمال 6/671،جمع الوسائل:1/125،اوجزالمسالک:6/335)

عن عامر مرسلا…ان الله لاينظرالي من يخضب بالسواد يوم القيامة(کنزالعمال6/671 )

2۔الدر المختار (6/ 422 ماخوذ از احسن التفاويٰ(8/363))

يستحب للرجل خضاب شعره ولحيته (الي قوله)ويكره بالسواد

حاشية ابن عابدين (6/ 422)

قوله ( ويكره بالسواد ) أي لغير الحرب

 قال في الذخيرة أما الخضاب بالسواد للغزو ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود بالاتفاق وإن ليزين نفسه للنساء فمكروه وعليه عامة المشايخ

3۔امداد الفتاوی (4/216)میں ہے:

حکم خضاب سیاہ

سوال (۲۵۸۶) :  قدیم  ۴/ ۲۱۵-   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ہٰذا کا جواب کہ سیاہ خضاب کرنا ریش کو جائز ہے یا نہیں ؟ امام حسین علیہ السّلام وحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وحضرت علی ؓ ودیگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا سیاہ خضاب کرنا ثابت ہے۔ امام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے بھی موطأ میں اسی طرح مروی ہے؟

الجواب: في المؤطا للإمام محمدؒ: أخبرنا مالک أخبرنا یحیی بن سعید أخبرنا محمد بن إبراہیم عن أبی سلمۃ بن عبدالرحمٰن أن عبدالرحمٰن بن الأسود بن عبد یغوث کان جلیساً لنا، وکان أبیض اللحیۃ والرأس فغدا علیھم ذات یوم، وقد حمرھا فقال لہ القوم: ھذا أحسن، فقال: إن أمي عائشۃ زوج النبي ﷺ أرسلت إليّ البارحۃ جاریتھا نخیلۃ، فأقسمت علی لأصبغن فأخبرتني أن أبا بکرؓ کان یصبغ قال محمد: لا نری بالخضاب بالوسمۃ، والحناء، والصفرۃ بأسًا، وإن ترکہ أبیض فلا بأس بذلک کل ذٰلک حسن اھ۔ في التعلیق الممجد علی المؤطأ قولہ: بالوسمۃ بفتحتین وبفتح الأول وسکون الثاني وبکسرہ أیضاً علی ما في القاموس والمغرب: ھو ورق النیل والخضاب بہ صرفا لا یکون سوادًا خالصاً، بل مائلاً إلی الخضرۃ، وکذا إذا خلط بالحناء وخضب بہ نعم لو خضب الشعر أولا بالحناء صرفا ثم بالوسمۃ علیہ یحصل السواد الخالص فیکون ممنوعاً کما سیأتي ذکرہ۔ وفیہ أیضاً بعد أسطر علی قولہ لا نری -إلی قولہ- بأسًا، وأما الخضاب بالسواد الخالص فغیر جائز لما أخرجہ أبو داؤد والنسائي وابن حبان والحاکم، وقال صحیح الإسناد عن ابن عباس مرفوعاً یکون قوم یخضبون في آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام (دانہ دان وسینہ ہائے کبوتران ۱۲ منہ) لا یریحون رائحۃ الجنۃ، وجنح ابن الجوزي في ’’العلل المتناھیۃ‘‘ إلی تضعیفہ مستندًا بما روي أن سعدا والحسین بن عليؓ کانا یخضبان بالسواد، ولیس

بجید فلعلہ لم یبلغھما الحدیث، والکلام في بعض رواتہ لیس بحیث یخرجہ عن حیز  الاحتجاج بہ، ومن ثم عدّ ابن حجرالمکي في الزواجر الخضاب بالسواد من الکبائر، ویؤیدہ ما

أخرجہ الطبراني عن أبی الدرداء مرفوعا من خضب بالسواد سود اللّٰہ وجھہ یوم القیامۃ، وعند أحمد: وغیروا الشیب ولا تقربوا السواد، وأما ما في سنن ابن ماجۃ مرفوعان وأن أحسن ما اختضبتم بہ ھذا السواد أرغب لنساء کم وأھیب لکم في صدور أعداء کم، ففي سندہ ضعفاء فلا یعارض الروایات الصحیحۃ، وأخذ منہ بعض الفقہاء جوازہ في الجہاد۔ اھ ۔

اس مجموعی عبارت سے امور ذیل مستفاد ہوئے:(۱)  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مطلق خضاب کرنا، سیاہ کا نام بھی نہیں ۔ (کما فی المؤطأ) (۲)  حضرت سعدؓ وامام حسینؓ کاخضاب بالسواد (کما في التعلیق مع الجواب عنہ) اور حضرت علیؓ یا کسی اور صحابی کا مؤطأ یا تعلیق میں نام بھی نہیں ۔(۳)  امام محمدؒ کا خضاب بالوسمہ کو جائز کہنا (کما في المؤطأ) لیکن اس سے خضاب بالسواد کے جواز پر دلالت نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ مطلق وسمہ سے سواد کا ہونا لازم نہیں ؛ بلکہ اس کی بعض خاص ترکیبوں سے سواد ہوتا ہے (کما في التعلیق) سوا س پر کوئی دلیل قائم نہیں ۔(۴)  خضاب بالسواد کی حرمت کی حدیثیں ابوداؤد اور نسائی اور ابن حبان اور حاکم اور طبرانی اور احمد سے مع تصحیح الحاکم (کما في التعلیق) ۔(۵)  ابن الجوزی کا بعض احادیث کو ضعیف کہنا حضر ت سعد وحسینؓ کے فعل سے۔(۶)  صاحب تعلیق کا جواب احتمالِ عدمِ بلوغِ حدیث سے۔(۷)  بعض حالات میں جواز سواد کا حدیث ابن ماجہ سے۔(۸)  صاحبِ تعلیق کا جواب اس حدیث کے رواۃ کے ضعف سے۔(۹)  ابن حجر کا خضاب بالسواد کا کبائر سے شمار کرنا۔(۱۰)  بعض فقہاء کا جہاد میں اس کو جائز کہنا۔مجموعہ امور عشرہ میں غور کرنے سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ قوت وترجیح جانب منع کو ہے، اور قائلین بالجوازکی کوئی دلیل قوی نہیں ، ان کے ادلّہ سب مخدوش ہیں ، راویۃً بھی اور درایۃً بھی، جن میں سے بعض کا ذکر ہو چکا ہے، بعض کا اب ذکر کیا جاتا ہے۔

في الطرائف والظرائف لہٰذا الاحقر:فائدۃ فقھیۃ في تحقیق خضاب الأسود استدل المجوزون بفعل الحسین بن عليؓ الذي رواہ البخاري في مناقب الحسن والحسین عن أنس بن مالک قال أتی عبیداللّٰہ بن زیاد برأس الحسین علیہ السلام، فجعل في طست فجعل ینکت، وقال في حسنہ شیئًا، فقال أنس: کان أشبھہم برسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم ، وکان (الحسین مخضوباً بالوسمۃ۔ اھ (۱)۔  والجواب عند المانعین بما في الحاشیۃ، وھذہ عبارتھا ظاہر وإن کان معارضًا لقولہ علیہ السلام: جنبوہ السواد (کما في سنن أبی داؤد، باب الخضاب بلفظ: واجتنبوا السواد في قصۃ إتیان أبی قحافۃ یوم فتح مکۃ) لکن المعنٰی کان مخضوباً بالوسمۃ الخالصۃ، والخضب بھا وحدھا لا یسود الشعر فاندفع التعارض بینھما؛ لأن المنہي عنہ ھو السواد البحت أو کون السواد غالبًا علیٰ الحناء لا بالعکس، ومنشأ الشریعۃ بنھیہ أن لا یلتبس الشیب بالشباب، والشیخ بالشاب علا أن الحسین کان غازیا شھیدا، فالخضاب بالسواد جائز في الجھاد۔ ۱۲ ج ۱ ص ۵۳۰ (۲)۔ ثم أراني حبی المولوی محمد إسحاق الحدیث في البخاري ھکذا حدثني أنس بن مالک، قال: قدم النبي صلی اﷲ علیہ وسلم  المدینۃ، فکان أسن أصحابہ أبوبکر فغلفھا بالحناء والکتم حتٰی قنأ (یعنی أحمر) لونھا۔ ص ۵۵۸، باب ھجرۃ النبي صلی اﷲ علیہ وسلم  وأصحابہ إلی المدینۃ۔ اھ (۳)۔

اس عبارت سے امور ذیل مستفاد ہوئے:

(۱۱)  بسلسلہ نمبر ہائے سابقہ بخاری میں امام حسینؓ کا مخضوب بالسواد ہونا مصرح نہیں ، پس جس روایت میں سواد وارد ہے جیسا نمبر: ۲میں گذرا وہ ماوّل ہے مشابہت سواد سے (ذکرہ عن اللمعات في حاشیۃ أبی داؤد باب الخضاب ص ۲۲۶‘ ج ۲) (۱۲)  حضرت ابوبکرؓ کا حنا وکتم سے خضاب کرنا اور باوجود اس کے رنگ کا سُرخ آنا جس سے نمبر: ۳کی تائید ہوتی ہے، کہ وسمہ کا استعمال مطلقًا مستلزم سواد نہیں ہے، خلاصہ یہ کہ حرمت کی ادلّہ قوی ہیں ‘ اور جواز کی کوئی دلیل قوی نہیں ؛ اس لئے عامّۂ علماء کا فتوی اس کی حرمت پر ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

ان  احسن ما اختضيتم به لهٰذا السواد ارغب لنساءکم فيکم و اهيب لکم في صدور عدوکم

محشی ابن ماجہ حضرت شیخ عبدالغنی مجددی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

ان احسن مااختضيتم به لهٰذا السواد هذا مخالف لرواية جابر السابقة وهو صحيح اخرجه مسلم(الي قوله) وهذا الحديث ضعيف لان دفاع السندوسي ضعيف کما في التقريب و عبدالحميد بن صيفي لين  الحديث و مذهب الجمهور المنع(حاشية سنن ابن ماجة/258 ماخوذ از احسن التفاويٰ(8/369)

4۔       الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم (2/ 291)

عن جابر قال أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضاً فقال رسول الله {صلى الله عليه وسلم} غيروا هذا بشيءٍ واجتنبوا السواد..

…………….فقد والله تعاليٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved