• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

صرف 10محرم الحرام روزہ رکھنا کیسا ہے؟

استفتاء

محرم کے کتنے روزے رکھنے چاہئیں؟ کیا صرف 10 محرم کا روزہ رکھ سکتے ہیں یا دو رزے رکھنا ضروری ہے؟ کیونکہ ایک روایت بنی ہوئی ہے کہ یا تو 9اور10 ا روزہ رکھو یا 10اور11 کا ۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

محرم کے دو روزے رکھنے چاہئیں، 10 محرم الحرام کا او ر اس کے ساتھ 9 محرم کا یا 11محرم  کا یا دونوں کا، خالی 10محر م کار وزہ رکھنا  مکروہ تنزیہی ہے۔ ہاں اگر کسی کو کوئی عذر ہو اور وہ 10محرم کے ساتھ9یا11محرم کا روزہ نہیں رکھ سکتا تو ایسی صورت میں صرف 10 محرم کا روزہ رکھنا بھی مکروہ تنزیہی نہ ہوگا۔

توجیہ: ماہ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشورے کا روزہ رکھنا حضورﷺ سے ثابت ہے،تاہم آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے ساتھ 9 یا 11 کا روزہ بھی رکھو تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور چونکہ آجکل بھی یہودیوں کا اپنے ساتویں مہینے (تشری) کی دسویں تاریخ (جس کو وہ یوم کپور کہتے ہیں)  کو روزہ رکھنا ثابت ہے لہٰذا تشبہ آجکل بھی موجود ہے ۔

البتہ اگر کوئی کسی بناء پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم از کم دسویں تاریخ کا ایک روزہ کھنے کی کوشش کرلے اس روزے کا بھی ثواب ہوگا ۔

البحر الرائق(2/277) میں ہے:

وأقسامه فرض وواجب ومسنون ومندوب ونفل ومكروه تنزيها وتحريما فالأول رمضان وقضاؤه والكفارات ‌والواجب ‌المنذور والمسنون عاشوراء مع التاسع، والمندوب صوم ثلاثة من كل شهر ويندب فيها كونها الأيام البيض وكل صوم ثبت بالسنة طلبه والوعد عليه كصوم داود – عليه الصلاة والسلام – وعلى سائر الأنبياء والنفل ما سوى ذلك مما لم يثبت كراهته والمكروه تنزيها عاشوراء مفردا عن التاسع

فتح القدیر(2/303) میں ہے:

والمسنون ‌عاشوراء مع التاسع

والمكروه تنزيها: ‌عاشوراء مفردا عن التاسع

والمسنون عاشوراء مع التاسع.ويستحب صوم ‌أيام ‌البيض الثالث عشر، والرابع عشر والخامس عشر ما لم يظن إلحاقه بالواجب، وكذا صوم يوم عاشوراء. ويستحب أن يصوم قبله يوما وبعده يوما. فإن أفرده فهو مكروه للتشبه باليهود

فتاوى عالمگیری(1/ 202)میں ہے:

 (المرغوبات من الصيام أنواع) أولها ‌صوم المحرم والثاني ‌صوم رجب والثالث ‌صوم شعبان وصوم ‌عاشوراء، وهو اليوم العاشر من المحرم عند عامة العلماء والصحابة – رضي الله تعالى عنهم – كذا في الظهيرية المسنون أن يصوم ‌عاشوراء مع التاسع كذا في فتح القدير. ويكره ‌صوم ‌عاشوراء مفردا كذا في محيط السرخسي

حاشيۃ ابن عابدين (2/ 374)میں ہے:

(ونفل كغيرهما) يعم السنة كصوم ‌عاشوراء مع التاسع

والمكروه تحريما كالعيدين. وتنزيها كعاشوراء وحده

(قوله: وعاشوراء وحده) أي مفردا عن التاسع أو عن الحادي عشر إمداد؛ لأنه تشبه باليهود محيط

اعلا  ء السنن (9/178)میں ہے:

عن ابن ابى ليلىى عن داؤد بن على عن ابيه عن جده قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صوموا يوم عاشوراء وخالفوا اليهود صوموا قبله يوما وبعده يوما رواه احمد. (نيل الاوطار،4/127)

ايضا: وقد نقل الحديث فى “التلخيص الحبير” عن البيهقى بهذا السند بلفظ “لئن بقيت الى قابل لامرن بصيام يوم قبله او بعده يوم عاشوراء” ولم يتكلم عليه. (1/99)

وفيه ايضا: فى رواية له أى للبيهقى صوموا عاشوراء وخالفوا اليهود صوموا قبله يوما او بعده يوما. (1/199)

وفيه “أو” مكان الواؤ ويدل الحديث على كراهة الافراد بصوم يوم عاشوراء بل السنة ان يضم معه يوما قبله او بعده، ففى الدر المختار: وتنزيها كعاشوراء وحده.

فى ردالمحتار: أى: مفردا عن التاسع او عن الحادى عشر. امداد. لانه تشبه باليهود. محيط ونحوه فى الطحطاوي (1/706) عن الامداد وفى العالمگيريه عن المحيط (1/130). وبه اتضح معنى قول “الدر المختار” ونفل  كغيرها يعم السنة كصوم عاشوراء مع التاسع الخ، فان كونه سنة مقابلا للكراهة باعتبار قيد صوم التاسع معه وكذا الحادي عشر كالتاسع والا فهو مندوب في نفسه لا سنة. فافهم

بدائع الصنائع (2/79) میں ہے:

وكره بعضهم صوم يوم عاشوراء وحده ‌لمكان ‌التشبه باليهود، ولم يكرهه عامتهم، لأنه من الأيام الفاضلة، فيستحب استدراك فضيلتها بالصوم

بذل المجہود(8/657) میں ہے:

عن ابن عباس أنه قال: “إذا رأيت ‌هلال ‌المحرم فاعدد وأَصْبِحْ يومَ التاسع صائمًا، قلت: أهكذا كان النبي – صلى الله عليه وسلم – يصومه؟ قال: نعم”، وهذا ظاهره أن يوم عاشوراء هو اليوم التاسع، لكن قال الزين بن المنير: إذا أصبحت من تاسعه فأصبح يشعر بأنه أراد العاشر؛ لأنه لا يصبح صائمًا بعد أن أصبح من تاسعه، إلَّا إذا نوى الصوم من الليلة المقبلة وهو الليلة العاشرة قلت: ويقوي هذا الاحتمال ما رواه مسلم أيضًا من وجه آخر عن ابن عباس أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: “لئن بقيت ‌إلى ‌قابلٍ لأصومنَّ التاسع فمات قبل ذلك”، ثم ما هَمَّ به من صوم التاسع يحتمل معناه أنه لا يقتصر عليه بل يضيفه إلى اليوم العاشر، إما احتياطًا له، وإما مخالفة لليهود والنصارى، وهو الأرجح.

ولأحمد  من وجه آخر عن ابن عباس مرفوعًا: “صوموا يوم عاشوراء وخالفوا اليهود، صوموا يومًا قبله أو يومًا بعده”، وهذا كان في آخر الأمر، وقد كان – صلى الله عليه وسلم – يحب موافقة أهل الكتاب، فلما فتحت مكة، واشتهر أمر الإِسلام، أحب مخالفة أهل الكتاب أيضًا، فصيام عاشوراء على ثلاث مراتب: أدناها أن يصام وحده، وفوقه أن يصام التاسع معه، وفوقه أن يصام التاسع والحادي عشر

العرف الشذی شرح سنن ترمذی(2/177) میں ہے:

‌وحاصل ‌الشريعة أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه

امداد الفتاویٰ(2/145) میں ہے:

سوال(۱۷۳) بندہ اب تک یہ فتویٰ دیتا تھا کہ دسویں محرم کا ایک روزہ رکھنا بلا کراہت درست ہے مگر درمختار وغیرہ میں اس کے خلاف جزئیہ نکلا، لہٰذا میں اس  سے رجوع کرکے اب  موافق اس جزئیہ فتویٰ دیتا ہوں کہ دسویں تاریخ محرم کو اکیلا روزہ رکھنا مکروہ ہے اس کے ساتھ نویں کا بھی رکھنے سے کراہت دور ہوگی۔ اسی طرح اگر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا بھی رکھ لے تب بھی کراہت نہ رہے گی مگر اول صورت اولیٰ ہے یعنی نویں دسویں کا  وہ جزئیہ یہ ہے۔

المكروه تحريما كالعيدين وتنزيها كعاشوراء وحده فى رد المحتار قوله وعاشوراء وحده اى مفردا عن التاسع او عن الحاوى عشر امداد لانه تشبه باليهود. محيط ص134ج2. فقط (ترجيح الراجح ص80ج4)

ایضاً

سوال(۱۷۴) ضروری دریافت یہ ہے کہ احقر نے بہشتی زیور کے تیسرے حصے میں نفل روزہ کے بیان میں دیکھا کہ محرم کی دسویں تاریخ میں روزہ رکھنا مستحب ہے، احقر نے دسویں تاریخ کو ایک روزہ ہی رکھا اب بض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نویں دسویں کا رکھنا چاہیے۔ ایک روزہ  میں اختلاف ہے ایک نہیں رکھنا چاہیے۔ اختلاف کیسا ارشاد فرمایا جائے۔

الجواب: واقعی دو ہی روزے رکھنا چاہئیں۔ بہشتی زیور کی تالیف کے وقت اس مسئلہ کی پوری تحقیق نہ تھی لیکن اگر نویں کو نہ رکھے تو گیارویں کو رکھ لے۔

فتاویٰ رحیمیہ(7/273) میں ہے:

موجودہ زمانہ میں صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا کافی ہے یا نہیں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عاشوراء کے روزے کے بارے میں فقہاء کرام نے حدیث تشابہ بالیہود کے سبب بجائے ایک روزہ کے دو روزے کو مسنون قرار دیا ہے اور صرف عاشوراء کے روزے کو  مکروہ قرار دیا۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے اپنے اس قول سے رجوع فرمالیا تھا کہ آپ پہلے صرف عاشوراء کے روزے کو کافی  وغیر مکروہ قرار دیتے تھے (امداد الفتاویٰ جلد دوم میں آپ کا رجوع منقول ہے) اب ایک مقتدر عالم نے حدیث تشبہ بالیہود کے تحت اپنی رائے کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا ہے (قولہ۔یہ عاجز عرض کر تا ہے کہ ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یوم عاشوراء کو روزہ نہیں رکھتے بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب  سے نہیں ہوتا اس لیے اب کسی اشتراک اور تشبیہ کا  سوال ہی نہیں رہا لہٰذ افی زماننا رفع تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے) مولانا اس تحریر کے بارے میں حضرات مفتیان کرام کی کیا رائے ہے؟

الجواب: ماہ محرم کی سویں تاریخ یعنی عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورﷺ کے عمل اور قول سے ثابت ہے اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ یہودیوں میں عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں ہے یہ ثابت کرنا مشکل ہے ان میں سے بعض  پرانے لوگ جو بزعم خود اپنے مذہب کے پابند ہیں روزہ رکھتے ہوں گے، لہٰذا علت تشبہ قائم ہے اور ا سمیں بھی انکار نہیں  کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل  چلا آرہا ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد  اجتماعی دعا منقول نہیں  لیکن امت اور اکابر کے عمل کو  بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے ، علیٰ ہذا عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد تکبیر  ثابت نہیں ہے فقہاء نے ۲۳ نمازیں شمار کی ہیں جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں اور یہ چوبیسویں نماز ہوجاتی ہے مگر توارث کی بناء پر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب تک فرمادیا ہے ولا بأس به عقب العيد لان المسلمين توارثوه فوجب اتباعهم وعليه البلخيون (درمختار مع الشامى ج1ص786 مطلب فى تكبير التشريق)

لہٰذا عاشوراء (یعنی دسویں محرم) کے روزے کے ساتھ نویں کا روزہ بھی رکھنا ہوگا، اگر نویں کا نہ رکھ سکے تو دسویں کے ساتھ گیارہویں کا بھی روزہ رکھ لے ۔هذا ما ظهر لي. فقط والله تعالى اعلم

مسائل  بہشتی زیور(1/392) میں ہے:

مسئلہ: محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو کوئی یہ روزہ رکھے اس کے گزرے ہوئے  ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ  رکھنا بھی مستحب ہے۔ صرف دسویں کو روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔

النبأالوطنی مصری ویب سائٹ میں ہے:

هل يصوم اليهود يوم عاشوراء حتى الآن؟

مع بداية كل سنة هجرية يصوم كثير من المسلمين يوم عاشوراء، اتباعا للسنة النبي، صلى الله عليه وسلم، ومن المعروف أن اليهود هم أول من صام هذا اليوم، وأنه انتقل إلى المسلمين بناء على أحاديث نبوية شريفة أشهرها قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: “نحن أولى بموسى منكم”، وذلك بعدما قدم إلى المدينة وعلم أن اليهود يصومون ذلك اليوم؛ باعتباره يوم نجا الله فيه موسى من فرعون؟

ويعتبر اليهود يوم عاشوراء، من الأيام المقدسة لديهم؛ لاعتقادهم بأنه اليوم الذي بدأت فيه الخليقة، وهو يوم العاشر من شهر “تشرى” العبري، ويسمونه يوم عاشور، أو “كيبور”، أي يوم الكفارة، زاعمين أنه لم يفرض عليهم من الصيام، إلا هذا اليوم وأما الأيام الأخرى التي يصومونها فيعتقدون أن صيامهم فيها نافلة، وتطرح هذه المعلومات التاريخية تساؤلا مهما، وهو هل مازال اليهود يهتمون بصوم عاشوراء حتى الآن؟

دائرة المعارف اليهودية ترى أن الصيام الوحيد الذي لم يرد غيره في التشريع الموسوي هو صيام يوم الغفران “يوم كبور”، حيث جاء النص “يكون لكم فريضة دهرية أنكم في الشهر السابع في عاشر الشهر تذلّلون نفوسكم، وكل عمل لا تعملون الوطني، والغريب النازل في وسطكم” (اللاويين 16:29).

ويبدأ اليهود صيامه قبل غروب الشمس بنحو ربع ساعة إلى ما بعد غروب الشمس في اليوم التالي بنحو ربع ساعة، فهو لا يزيد بحال عن خمس وعشرين ساعة متتالية، وهو عاشوراء اليهود، وما زال فيهم حتى اليوم، “موسوعة الكتاب المقدس لمجموعة من الباحثين، [ص:33]، ط 1993م. دار منهل الحياة – لبنان”.

ويرجع أصل يوم عاشورا إلى أن بني إسرائيل في مصر في عهد الفرعون عاشوا عيشةً ذليلةً مهينة ، فقد كان يستضعفهم و يقتل أبناءهم و يبقى نساءهم أحياء ، وعندما دعا موسى عليه السّلام بدعوة النّاس إلى دين الله فآمن به قومه ، استكبر الفرعون و حاشيته عن قبول دعوة الحقّ بل ومكروا لها.

 وأكدت الكثير من المصادر أن اليهود ما زالوا يصومون عاشوراء، ولكنه لم يوافق العاشر من محرم لديهم، موضحين أنه وفقا لمقارنة التقاويم الهجرية، والعبرية، لم يحصل أبدا أن وافق يوم العاشر من محرم اليوم العاشر من الشهر العبري (تشري) الذي يصوم فيه اليهود إحتفاءً بنجاة بني إسرائيل من فرعون.

   معارف السنن(5/440) میں ہے:

“قال الشيخ: والجواب عن ذلك أن اليهود كانوا يحبسون  بالشهور الشمسية والقمرية جميعاً، فكان بعضهم عاشوراء عاشر تشرين  الأول  بالشهور الشمسية، فلعله صادف قدومه في الربيع الأول يوم عاشورائهم في تشرين الأول، ثم أمر صلى الله عليه وسلم  بصيامه في عاشر المحرم  في السنة  المقبلة  عملاً بأصل وضعه وحقيقته  دون ما أحدثوا  في تاريخه من التغيير  بتحويل القمري إلى الشمسي”.

العرف الشذی شرح سنن  ترمذی(2/179،178) میں ہے:

“واعلم أن في هذا الباب إشكالاً أورده رجل من هذا العصر وحاصله: أن صوم عاشوراء فضله إنما هو لأنه يوم خلص موسى عليه الصلاة والسلام من يد فرعون فيه، فالفضل باعتبار الشريعة الموسوية، وكان في اليهود الحساب شمسياً، فكيف انتقل صوم عاشوراء إلى عاشر المحرم من الحساب القمري؟ والجواب: أن صوم عاشوراء في اليهود كان عاشر الشهر الأول، من السنة المسمى بتشرين الأول فوضعه عليه الصلاة والسلام من الشهر الأول من سنتنا وهو عاشر المحرم، وفي المعجم الطبراني: أنه عليه الصلاة والسلام لما دخل المدينة وجد اليهود صاموا عاشوراء، فسأل أي يوم هذا؟ قالوا: عاشوراء خلص فيه موسى عليه الصلاة والسلام من يد فرعون، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نحن أحق باتباع موسى عليه الصلاة والسلام، وكان دخل النبي صلى الله عليه وسلم المدينة في الربيع الأول، ولايمكن فيه عاشوراء المحرم، فلعله كان اتفق عاشر تشرين الأول بيوم دخوله من الربيع الأول، ثم لعل أمره بالصوم كان في عاشر المحرم، ثم أقول: إن اليهود كان بعضهم كان يصوم عاشر تشرين، وبعضهم عاشر المحرم، فدل على أنهم عالمون الحسابين الشمسي والقمري، وكذلك روايات تدل على علمهم الحساب الشمسي والقمري ويدل عليه القرآن العزيز: «إنما النسيء زيادة في الكفر» إلخ على ما فسر الزمخشري من الكبيسة، ويحولون الحساب القمري إلى الشمسي، وأيام السنة القمرية ثلاثمائة وأربعة وخمسون يوماً (354) ، وأيام السنة الشمسية ثلاثمائة وخمسة وستون يوماً وربع يوم (365) فبعد ثلاث سنين، تزيد الشمسية على القمرية بشهر، فكان العرب يقولون بعد التحويل نجعل صفر محرماً بناء على أن الكبيسة تصير ثلاثة عشر شهراً بعد ثلاث سنين، وكان الحرب في المحرم حراماً عليهم، وكذلك في الأربعة الحرم فهذا التحويل هو النسيء لا فرض محرم صفراً بلا قاعدة وضابطة، هذا والله أعلم وعلمه أتم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved