• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

صرف نفع میں شرکت

استفتاء

جناب میری ایک شخص کے ساتھ شراکت میں ایک ٹریول ایجنسی ہے۔ اور ہم حج وعمرہ اور ٹکٹوں کا کام کرتے ہیں۔ ہم دونوں کی شراکت برابر یعنی ففٹی، ففٹی  کی ہے۔ میرا شریک اس قابل نہیں ہے کہ خود کاروبار کو چلا سکے، بلکہ اگر وہ آفس بیٹھتا ہے تو نہ خود کام کرتا اور نہ ہی کسی اور کو کام کرنے دیتا ہے اور پہلے کافی دفعہ فساد اور فتنہ کی وجہ بن چکا ہے۔ شاید زیادہ عمر کی وجہ سے اس کی دماغی حالت ایسی ہوگئی ہے۔ اور اب ہمارا ایک ساتھ کام کرنا ناممکن سا ہو گیا ہے اور خود وہ اس قابل نہیں کہ اکیلا کاروبار کو چلائے اور مجھ پے ان اتنا اعتبار نہیں کہ مجھے کاروبار چلانے دیں اور سال کے آخر میں ان کا حصہ ان کو دے دوں۔ اور ہم کاروبار بھی ختم نہیں کرسکتے۔ مجھے میرے شریک کی طرف سے یہ آفر ہوئی کہ میں اس کو ہر سال ایک مخصوص رقم دے دیا کروں۔ جو کہ میں نے قبول نہ کی۔ کیونکہ یہ جائز نہیں۔

ایک صورت میرے ذہن میں آئی ہے کہ ہمیں ہر سال جو حج کو کوٹا حکومت کی طرف سے ملتا ہے وہ لازمی نہیں کہ پچھلے سال جتنا ہو۔ وہ بڑھ بھی سکتا ہے اور کم بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں نے یہ سوچا ہے کہ اگر میں ان سے ہر حج فارم کی ایک قیمت مقرر کر لوں اور جب یہ معلوم ہو جائے کہ اس سال ہمیں حکومت کی طرف سے کتنے حج فارم ( حج کوٹا ) مل رہا ہے تو اس مقرر کردہ رقم جو ایک حج فارم کی اس کی شراکت کا حصہ مقرر کیا تھا، ملے ہوئے  کوٹے کے مطابق جو اس کا حصہ بنے وہ اسے دے کر پورے حج کوٹے میں سے اس کا حصہ خرید لوں۔(اس بات کی مزید وضاحت آخر میں ہے)

باقی کام جو کمپنی کرتی ہے مثلاً عمرہ ، ٹکٹیں اور ویزاز وغیرہ کے مجملات طے پاگئے ہیں کہ وہ کام سارا سال میں دیکھوں گا اور خرچہ بھی سارا میرا ہوگا اور اگر نقصان ہوا تو میرا ، اور اگر منافع ہو تو اس کی کمپنی میں شراکت کی وجہ سے میں منافع کا  کچھ حصہ اسے دوں گا۔ چونکہ حج کے کام میں بہت بڑی رقم کا معاملہ ہے اور یہ سارا سال نہیں بلکہ سال میں ایک دفعہ ہوتا ہے اس لیے یہ معاملہ طے نہیں پارہا ہے۔

سوال: مہربانی کر کے یہ تحریر فرمادیں کہ حج کے کام کے لیے جو  ترکیب میرے ذہن میں آئی ہے کیا وہ جائز ہے؟ اور اگر کوئی ترکیب آپ کے پاس ہے تو وہ بھی دے دیں۔دوسرا یہ کہ حج کے علاوہ باقی کاموں یعنی عمرہ، ٹکٹیں اور ویزاز وغیرہ کے لیے جو ہم نے طے کیا ہے  وہ جائز ہے ؟ مہربانی فرما کر میرا مسئلہ پر خوب غور کریں اور وقت  کم ہونے کی وجہ سے میرے مسئلے کو  فوقیت دیں اور مجھے ایک تحریری فتوہ جتنی جلدی ہو سکے دے دیں۔

نوٹ: اس کا حاصل یہ ہے کہ حکومت سے ملنے والے فارم جس کی سیکورٹی ہم نے اپنے ادارے اور کمپنی کی طرف سے پہلے ہی حکومت کو جمع کروا رکھی ہے۔ یہ فارم مارکیٹ میں بکتے ہیں لوگ وزارت سے لیکر اداروں کو دیتے ہیں تو میں ان فارم میں جو میرے دوسرے پارٹنر کا حصہ ہوگا اسے اس سے خرید لو گا جس سے ا س کو نفع ہوجائے  گا اس طرح سے حج کوٹے کے فارم صرف میرے ہو جائیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کی حج فارم سے متعلق ذکر کردہ صورت درست نہیں ، کیونکہ اس میں حج فارم کی ” جو کہ حکومت کی طرف سے بلا معاوضہ ملتا ہے” فروخت ہے۔ اور فارم بذات خود ایسی چیز نہیں جو بیچنے یا خریدنے کے قابل ہو۔

اور دوسری صورت جو اس کے علاوہ کاروبار اور ٹکٹوں کے متعلق ہے، یہ بھی درست نہیں، کیونکہ اس میں دوسرا شریک صرف نفع کی بنیاد پر شریک ہے۔ جبکہ شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ شراکت اور سرمایہ کاری  نفع و نقصان دونوں کی بنیاد پر ہو۔

بہر حال اگر وہ آپ کے ساتھ شریک کاروبار رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں نفع ونقصان دونوں میں شریک ہونا پڑے گا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved