• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

صرف قبول (کہ میں اس کو بعوض اتنے مہر قبول کرتاہوں ) سے نکاح( )

استفتاء

**** کی منگنی*** سے ہوئی اور کافی عرصہ ہوگیا۔نکاح و رخصتی کی طرف گھر والے توجہ نہیں دے رہے۔

[1] :  تنبیہ: درج ذیل تفصیل ریکارڈ کے لیے ہے۔

اولاً دارالافتاء سے یہ جواب لکھا گیا:

مذکورہ صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا کیونکہ فاطمہ کے یہ الفاظ” میں تمہیں اختیار دیتی ہو تم نکاح مجھ سے کر لو” یہ نکاح کی پیشکش یا زیادہ سے زیادہ اجازت ہے تو کیل نہیں۔

حضرت  الاستاذ مفتی *** صاحب نے خط کشید جملہ کاٹ کر آگے یہ اضافہ فرمایا:

یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد **** کا یہ کہنا کہ” میں اس کو بعوض اتنے مہر قبول کرتا ہوں” ایجا ب کے بغیر ہے۔ **** کو چاہیے تھا کہ یوں کہتا” فاطمہ نے مجھے اپنا وکیل بنایا ہے، لہذا میں نے فاطمہ کا نکاح اپنے سے کیا”۔

اس صورت میں مفتی صاحب نے گویا توکیل کو تسلیم کر لیا لیکن عدم نکاح کا حکم بوجہ عدم استعمال توکیل بطریق صحیح  لگایا۔ اس پر مفتی ***صاحب نے یہ نوٹ لکھا:

” منسلکہ جوا ب دو پہلوؤں سے قابل غور ہے: ۱۔ فاطمہ کے مذکورہ قول کو توکیل کہا گیا ہے۔ جبکہ توکیل میں کوئی شخص دوسرے کو اپنے فعل کا وکیل بناتا ہے نہ کہ خود اسی کے فعل کا۔ اور نکاح مجھے سے کرلو  یہ وکیل کا فعل ہے مؤکل کا فعل نہیں۔

۲۔ اگر علی سبیل التنزل اس کو توکیل بھی کہیں تو یہ توکیل ضمنی ہے نہ کہ صریح جیسا کہ زوجنی توکیل ضمنی ہے نہ کہ صریح۔ اس بات کی تصریح شامی ( 4/ 79 کتاب النکاح ) میں ہے۔ اور توکیل ضمنی میں  نکاح کے لیے اتحاد مجلس شرط ہے۔ کما مصرح فی الشامیة (۔۔۔۔۔)۔ جبکہ منسلکہ جواب کا مفاد یہ ہے کہ **** اگر اس وقت مجوزہ جملہ کہہ دیتا اب اس کے بعد کسی وقت بھی کہہ لے تو نکاح  صحیح ہو جائے گا۔ اس لیے بندہ کے خیال میں جواب صرف اتنا ہو کہ مذکورہ صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا اور نہ ہی آپس میں دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ فقط                 ***( 1433ھ )

اس پر حضرت الاستاذ صاحب نے یہ دو سوال اٹھائے۔

۱۔ اگر یہ توکیل نہیں تو  پھرکیا ہے؟

۲۔ اگر توکیل ضمنی ہے تو اصلاً کیا ہے؟

مفتی رفیق صاحب کی طرف سے ان کا یہ جواب دیا گیا:

۱۔ توکیل نہ ہونے کی صورت میں یہ کلام لغو ہے۔ لعدم وفور شرائط التوکیل۔

۲۔ اصلاً یہ امر بالنکاح ہے اور ضمناً توکیل جیسا کہ زوجنی میں بھی وہی تفصیل ہے۔

اس کے بعد حضرت الاستاذ صاحب نے  مفتی صاحب کا مجوزہ جواب بطور فتوے کے منظور فرمالیا۔( شعیب احمد ، 5 صفر المظفر 1433 )

ہوئی اور کافی عرصہ ہوگیا۔نکاح و رخصتی کی طرف گھر والے توجہ نہیں دے رہے۔

**** نے فاطمہ کو ملنے کا کہا۔ فاطمہ نے کہا کہ اگر نکاح کروگے تو ملیں گے ورنہ نہیں، اور میں تمہیں اختیار دیتی ہوں  نکاح مجھ سے کرلو۔اب **** نے مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں فاطمہ کے اختیار کا تذکرہ کر کے کہا کہ” میں اس کو بعوض اتنے مہر قبول کرتا ہوں”۔ آیا اب  ان دونوں کا نکاح منعقد ہو گیا یا نہیں؟ کیا اس کے بعد ازروئے شرع مل سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح منعقد  نہیں ہوا۔ اور نہ ہی آپس میں دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved