• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صرف قرآن ہاتھ میں لے کر کوئی بات کہنے سے قسم کا حکم

استفتاء

میرے بیٹے کی عمر تقریباً16  سال ہے اس نے ایک دن کسی وجہ سے قرآن پاک پر ہاتھ رکھا کہ میں اپنی بہن کو ٹیوشن   نہیں لے کر جاؤں گا لیکن ابو کے کہنے پر وہ اپنی بہن کو ٹیوشن سے لے کر آیا ہے اب اس مسئلہ کا کوئی حل بتائیں کہ کیا وہ اب اپنی بہن کو کبھی کہیں بھی نہیں لے کر جا سکتا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بھائی اپنی بہن کو   ٹیوشن  یا کسی اور  جگہ بھی  لے کر جا سکتا ہے ، کیونکہ صرف  قرآن پر ہاتھ رکھنے سے قسم  نہیں ہوتی جب تک کہ قسم کھانے والا زبان سے  قسم کے الفاظ ادا نہ کرے ۔

امدادالاحکام (3/40) میں ہے:

قال في الدر: وقال العيني: وعندي ‌أن ‌المصحف ‌يمين لا سيما في زماننا (قوله وقال العيني إلخ)عبارته: وعندي انه لو حلف بالمصحف أو وضع يده عليه وقال: وحق هذا فهو يمين وأقره في النهر. وفيه نظر ظاهر إذ المصحف ليس صفة لله تعالى حتى يعتبر فيه العرف وإلا لكان الحلف بالنبي والكعبة يمينا لأنه متعارف نعم لو قال أقسم بما في هذا المصحف من كلام الله تعالى ينبغي أن يكون يمينااه(77،78،79 جلد3 )

قلت:وفي عرفنا القرآن والمصحف وكلام الله كله بمعنى واحد قال في الدروعند الثلاثة المصحف والقرآن وكلام الله يمين (صفحه مذكوره)

فينبغى ان يكون الحلف بالثلاثة يمينا في عرفنا لكون القرآن  من صفات الله والمصحف  وكلام الله بمعناه لايراد بهما الا القرآن فقط نعم لو وضع المصحف على يده وقال احلف به لا يكون يمينا لكون المراد به الجلد والنقوش ونحوهما لكن قال الشيخ ان الحلف بوضع اليد على المصحف ابلغ عند العوام من الحلف بالقرآن  وبكلام الله  واشد وليس ذلك لكون الجلد والنقوش اعلى عندهم من القرآن  بل لكونهم يريدون بالحلف بوضع اليد  عليه الحلف بالقرآن  ويضعون اليد عليه استحضار العظمة بمعانية ما يتضمنه وعلى هذا فينبغي ان يكون الحلف بوضع اليد يمينا كما هو قول الزيلعي ، نعم وضع اليد بدون صيغة الحلف لا يكون يمينا اه.

قلت: ولعل الحق لا يتجاوز عنه واما القرآن وكلام الله وان كان المراد به عند العوام الكلام اللفظي ولكنه لا يجوز عليه اطلاق انه مخلوق او غيره تعالى كما مر فيلتحق بالكلام النفسي في كونه يمينا لا سيما اذا تعورف الحلف به هذا.

فتاویٰ مفتی محمود(8/452) میں ہے:

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ ایک شخص نے عدالت میں قرآن مجید ہاتھ میں لے کر کہا کہ مسماۃ وحید فاطمہ کا نکاح مسمی اللہ بخش سے نہیں ہے حالانکہ نکاح تھا۔ اگر حلف مذکور ایسا نہ کرتا تو مبلغ پانچ ہزار روپیہ بے گناہ ڈگری ہوجاتا۔ تو حالف مذکور نے ظلم کے خوف سے ایسا کیا تو آیا  حالف گناہ گار ہوگا یا نہیں؟ جیسا کہ شرح وقایہ وہدایہ میں ہے۔ لا حلف بغير الله كالنبي والقرآن تو کیا ایسے حلف کا کفارہ ادا کرے یا نہ؟ یا فقط توبہ استغفار کرے؟

الجواب: صرف قرآن مجید کو ہاتھ میں اٹھا کر کوئی کلمہ کہے اس سے حلف نہیں ہوتا۔ البتہ اگر وہ بات غلط ہو تو جھوٹ کا گناہ ہوگا جس سے استغفار کرنا لازم ہے۔

فتاویٰ محمودیہ(14/42) میں ہے:

الجواب:……….. محض قرآن مجید ہاتھ میں لے کر بات  کہنے سے قسم نہیں ہوجاتی  جب تک لفظِ قسم نہ کہے۔

مسائل بہشتی زیور(2/157) میں ہے:

اگر کلام مجید کو ہاتھ میں لے کر اس پر ہاتھ رکھ کرکوئی بات کہی لیکن قسم نہیں کھائی تو قسم نہیں ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved