• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

SMDسکرین خرید کر بغیر قبضے کے بائع کو کرائے پر دینا

استفتاء

ہماری کمپنی فیوچر ویژن ایڈورٹائزنگ ایس ایم ڈی سکرین پر ایڈورٹائزنگ کا کام کرتی ہے اور گورنمنٹ کے ان تمام اداروں سے رجسٹرڈ ہے جن سے ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کا رجسٹر ہونا ضروری ہے اس ضمن میں ہم اپنے کسٹمر کو ایک بزنس آفر کرتے ہیں جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

آپ ہم سے ایس ایم ڈی سکرین خریدتے ہیں جس کا سائز 6/3 فٹ ہے اور اس کی قیمت 6 لاکھ روپے ہے ۔ہم یہ سکرین آپ سے کرائے پر لے لیتے ہیں اور کرائے کا ایگریمنٹ 1200 روپے والے اسٹام پیپر پر چار سال   (48 ماہ) کی مدت کے لیے ہوتا ہے۔ اسکرین کا ماہانہ کرایہ  35 ہزار روپے ہوتا ہے۔ ایگریمنٹ کے ساتھ کمپنی آپ کو ایک چیک 6لاکھ کا سیکورٹی کے طور پر دے گی آپ چار سال میں کرائے کی صورت میں ٹوٹل 16 لاکھ 80 ہزار روپے کماتے ہیں چار سال کے بعد کمپنی آپ کو آفر کرتی ہے کہ آپ اسی سکرین پر مزید چار سال تک کا ایگریمنٹ کر لیں یا آ  پ چاہیں تو کمپنی سے سکرین واپس لے لیں کیونکہ یہ سکرین آپ کی ملکیت ہے اور اس سکرین کو اپنے ذاتی استعمال میں رکھ لیں یا بیچ دیں اگر آپ سکرین بیچنا چاہیں تو فیوچر ویژن ایڈورٹائزنگ کمپنی  آپ سے سکرین خرید سکتی ہے۔

نوٹ : کمپنی ایڈورٹائزمنٹ سے پیسہ کمائے گی اور ماہانہ سکرین کا کرایہ دینے کی پابند ہوگی۔

مفتی صاحب یہ کاروبار کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے:1۔ خریدار سکرین پر قبضہ کب کرے گا؟2۔ کیا ایگریمنٹ کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ سکرین خریدنے کے ساتھ ہی کمپنی کو کرائے پر دے ؟

جواب وضاحت: چار سال مکمل ہونے پر قبضے کی اجازت ہے اس سے پہلے نہیں۔2۔ جی کمپنی نے پالیسی اسی طرح بنائی ہے کہ کسٹمر  یہ عقد کر کے فورا کرائے پر دے اور جو    کسٹمر یہ سکرین خرید کر کمپنی کو کرائے پر نہ دے کمپنی اس سے ڈیلنگ نہیں کرے گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ کاروبار کرنا ناجائز ہے۔

توجیہ: چونکہ مذکورہ عقد میں کمپنی شرط فاسد (یعنی سکرین[مبیع] )پر  ۴ سال بعدقبضہ  کرنے کی اور سکرین (مبیع)  کمپنی کو کرایہ پر دینے کی شرط) لگاتی ہے  جسکی وجہ سے مذکورہ معاملہ فاسد ہوجاتا  ہے ۔نیز مذکورہ صورت میں کمپنی  مبیع  پر قبضہ سے پہلے کرایہ پر دینے کی شرط لگاتی  ہے جبکہ مبیع کو  قبضہ سے پہلے کرایہ پر دینا  بھی ناجائز ہے لہذا مذکورہ کا روبار کرنا  جائز نہیں ہے۔

تبیین الحقائق (4/12) میں ہے:

وقد نهى رسول الله  صلى الله عليه وسلم عن صفقة في صفقة»

شامی(7/287) میں ہے:

ولا بيع بشرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما او المبيع.

ہدایہ(3/69) میں ہے:

“‌ومن ‌باع ‌عينا على أن لا يسلمه إلى رأس الشهر فالبيع فاسد”؛ لأن الأجل في المبيع العين باطل

شرح المجلہ (2/174) میں ہے:

‌للمشتري ‌أن ‌يبيع ‌المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا‌وإن ‌كان ‌منقولا فلا يعنى وإن كان المبيع  منقولا فليس للمشترى أن يبيعه لآخر لأن بيعه فاسدا اتفاقا ……. فليس للمشترى أن يؤجر المبيع من آخر قبل قبضه.

فتح القدیر (6/515) میں ہے:

‌فلو ‌كان ‌العقار ‌قبل القبض لا يحتمل التمليك ببدل لم يثبت للشفيع حق الأخذ قبل القبض، وهذا يخرج إلى الاستدلال بدلالة الإجماع على جواز بيع العقار قبل القبض، وأما الإلحاق بالإجارة ففي منع الإجارة قبل القبض منع فإنه قيل: إنه على هذا الخلاف، والصحيح كما قال في الفوائد الظهيرية أن الإجارة قبل القبض لا تجوز بلا خلاف لأن المنافع بمنزلة المنقول والإجارة تمليك المنافع فيمتنع جوازها قبل القبض.وفي الكافي وعليه الفتوى.

البنایہ شرح الہدایہ (8/247) ميں  ہے:

ومن ‌اشترى ‌شيئا ‌مما ‌ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه؛ لأنه عليه السلام    نهى عن‌‌ بيع ما لم يقبض؛ لأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك

لم يجز له بيعه) بخلاف عتقه وتدبيره وهبته وتصدقه واقراضه ورهنه واعارته من غير بائعه ………. والاصل ان كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز وما لا فلا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved