- فتوی نمبر: 6-52
- تاریخ: 18 جون 2013
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک
استفتاء
SMS خزانہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ SMS خزانہ ایک انعامی مقابلہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس مقابلے میں شریک ہونے والا سب سے پہلے 5555 پر "JK” لکھ کر بھیجتا ہے اس کے جواب میں شریک کو ایک استقبالی SMS اور پہلا سوال موصول ہوتا ہے۔ ہر موصول ہونے والے سوال کے نیچے دو احتمالی جواب ہوتے ہیں۔ شریک ان میں سے درست جواب کا نمبر یعنی 1 یا 2 لکھ کر 5555 پر بھیجتا ہے۔ اس مقابلہ میں ہر SMS پر شریک کے 10 روپے+ ٹیکس کٹتے ہیں، اس کے بعد قرعہ اندازی میں انعامات دیے جاتے ہیں۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ بذریعہ قرعہ اندازی یومیہ انعام: ایک ایک لاکھ کے دو انعام
2۔ ہفتہ وار انعام: سوزوکی گاڑی
3۔ عید کا انعام: 15 لاکھ روپے
4۔ گرینڈ انعام: 50 لاکھ روپے
5۔ ہر درست جواب کا انعام: 5 منٹ فری اور 20 SMS فری
6۔ ہر غلط جواب کا انعام 5 SMS فری
مذکورہ بالا انعامی مقابلہ شرعی طور پر درست ہے یا نہیں؟ اور اس میں شریک ہونا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ انعامی مقابلہ شرعاً درست نہیں ہے اور نہ اس میں شرکت درست ہے۔
توجیہ: مذکورہ طریقہ کار قمار میں داخل ہے کیونکہ قمار کی تعریف یہ ہے کہ
"کسی غیر یقینی صورتحال پر اپنا مال اس طرح داؤ پر لگایا جائے کہ یا تو مال لگانے والا بغیر کسی معاوضے کے اپنے مال سے ہاتھ دھو بیٹھے یا دوسرے کا مال بغیر کسی معاوضے کے اپنی طرف کھینچ لے۔”
SMS خزانہ میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے، کیونکہ ہر SMS پر استعمال کنندہ کے دس روپے بمع ٹیکس کٹتے ہیں، اگر قرعہ اندازی میں نام نکل آیا تو زیادہ رقم بغیر کسی معاوضے کے مل جائے گی اور اگر نام نہ نکلے تو استعمال کنندہ کے پیسے بغیر معاوضے کے چلے جائیں گے۔
اگرچہ اس پر یہ اشکال ہو گا کہ ہر صورت میں استعمال کنندہ کو کچھ نہ کچھ ملتا ہے حتی کہ غلط جواب دینے کی صورت میں بھی پانچ
مفت SMS ملتے ہیں، لہذا استعمال کنندہ کے پیسے بغیر معاوضے کے نہیں جائیں گے۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ان صورتوں میں استعمال کنندہ کے جتنے پیسے کٹتے ہیں ان کا پورا پورا معاوضہ نہیں ملتا بلکہ بہت تھوڑا ملتا ہے اور زائد رقم بغیر معاوضے کے چلی جاتی ہے۔
لہذا SMS خزانہ جوا ہونے کی بناء پر نا جائز ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
إن القمار من القمر الذي يزداد تارة و ينقص أخری و سمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلی صاحبه و يجوز أن يستفيد من مال صاحبه و هو حرام بالنص. (رد المحتار: 6/ 402) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved