• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سوشل میڈیا کے ذریعے دینی خدمت کرنا

استفتاء

اگر ہم کسی کو حدیث شریف سینڈ کرتے ہیں نیکی کی دعوت دینے کی نیت سے۔ لیکن اس شخص کو ہمارا حدیث بھیجنا پسند نہیں ہے۔ لیکن وہ منع نہیں کر پارہا صاف لفظوں میں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں اس شخص کو نیکی کی دعوت دیتے رہنا چاہئے یا خود کو اس سے روک لینا چاہئیے؟

وضاحت مطلوب:            اسے پسند نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ کیا کوئی نجی (پرسنل) وجہ ہے یا دینی مسئلہ ہے؟

جواب وضاحت:  مجھے جو وجہ لگتی ہے وہ دین سے دوری لگتی ہے۔ دین کی باتوں میں اور دین سیکھنے میں ایک مسلمان کو جو دلچسپی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔ کوئی نجی مسئلہ نہیں ہے ہمارا۔ میری چاہت صرف یہی ہے کہ لوگ میرے نبی کا دین سیکھیں اور پھر اس کے حساب سے اپنی زندگی گزاریں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ لوگ میری بھیجی ہوئی حدیث پڑھتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ ڈیلیٹ  کر دیتے ہیں، کوئی اپنے سینے میں اتارنے کی کوشش نہیں کرتا ان حدیثوں کو۔ یہ میں کسی پر تہمت نہیں لگا رہا میں نے خود اپنی آنکھوں سے ان کے موبائل چیک کیے ہیں اور میری حدیث کا میسج چیک کرتے وقت ان کے چہرے کے تاثرات بھی میں نے دیکھے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید میں انہیں تنگ کررہا ہوں اپنی ذات سے۔ اب آپ بتادیں کہ اس صورت میں میرے نبی کا کیا حکم ہے؟ مجھے کیا کرنا چاہئیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

لوگوں کا دین سیکھ کر اس پر عمل کرنے کی آپ کی چاہت قابل قدر ہے۔  لیکن اس کے لیے آپ کو وہ ذریعہ اختیار کرنا چاہئیے جس کی افادیت مسلمہ بھی ہو۔ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا  اپنی وضع کے لحاظ سے دین حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ اس میں غالب حصہ لایعنی اور غیر مشاغل کا ہے، جس قسم کی صورتحال آپ کو درپیش ہے وہ ایک طبعی چیز ہے۔ آپ کو بھی چاہئیے کہ اپنے اوقات کو ایسےزیادہ مفید کاموں میں صرف کریں۔ باقی رہا مذکورہ صورتحال میں ان کو حدیث بھیجتے رہنا یا روک دینا یہ آپ کا صوابدیدی کا معاملہ ہے۔ دونوں پہلوؤں میں سے جس کو چاہیں اختیار کریں۔ مگر لوگوں سے شکایت کا کوئی فائدہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved