• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سوشل سیکورٹی میں ملازمت، اس سے الحاق اور فائدہ اُٹھانے کا حکم 

استفتاء

  1. پیسی(پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن) میں ملازمت کا حکم
  2. پیسی(پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن) کے ساتھ الحاق کا حکم
  3. پیسی(پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن) کے ذریعہ علاج معالجہ و دیگر سہولیات لینے کا حکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

پیسی(پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن) گورنمنٹ آف پنجاب کے محکمہ افرادی قوت کے تحت ایک ذیلی سرکاری ادارہ ہے۔ سرکاری محکمہ ہونے کی وجہ سے اس کی تمام پالیسیاں گورنمنٹ آف پنجاب والی ہیں۔ اس کے سربراہ (یعنی کمشنر پیسی) اور نائب سربراہ (وائس کمشنر) اور ڈائریکٹر ایڈمن کا تقرر گورنمنٹ خود کرتی ہے، اس میں ادارہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ان کے علاوہ باقی ملازمین یہ ادارہ خود اپنی سربراہ (کمشنر پیسی) کے اختیار سے رکھتا ہے۔ یہ ایک سیمی گورنمنٹ ادارہ  ہے  جو کہ کچھ بااختیار ہے جسے اٹانومس باڈی کہتے ہیں۔ سوشل سیکورٹی کا قانون 1965ء میں لاگو کیا گیا جس کو انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

قانون کے مطابق ہر وہ نجی ادارہ، جس کے 5یا 5سے زائد ملازم ہوں، ان کے لئے سوشل سیکورٹی کے ساتھ الحاق قانونا لازم ہے۔ اگر وہ الحاق نہیں کرتے تو ادارہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتا ہے، ان پر جرمانہ لاگو کرتا ہے، اس کے لئے الگ سے سوشل سیکورٹی کورٹ بھی بنے ہوئے ہیں۔ ہر نجی ادارہ اپنے ہر ہر ملازم کی طرف سے (ان کی تنخواہ میں کٹوتی کے بغیر) ایک رقم ہر ماہ جمع کرواتا ہے، جسے ’’سوشل سیکورٹی کنٹری بیوشن‘‘ کہتے ہیں۔

جس ملازم کی طرف سے کنٹری بیوشن جمع کروایا جاتا ہے، اسے  ’’سیکیورڈ ورکر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر سیکیورڈ ورکر کو ایک کارڈ جاری کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کارڈ پر جس کا نام اور شناختی کارڈ  نمبر لکھا ہے، وہ شخص پورے صوبہ میں سوشل سیکورٹی کے کسی بھی سنٹر پر جا کر علاج کی سہولت مفت حاصل کر سکتا ہے۔ جس کے پاس یہ کارڈ نہ ہو، اسے علاج کی سہولت نہیں دی جاتی بلکہ محکمہ صحت کے سرکاری ہسپتالوں میں جانے کا کہہ دیا جاتا ہے۔

ادارہ ہر سیکیورڈ ورکر، اس کے والدین اور بیوی بچوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرتا ہے، چاہے خود کرے یا کسی اور ہسپتال وغیرہ کے ذریعہ کرائے۔ یہ علاج کی سہولت دینا ادارہ کی ذمہ داری ہے۔ سیکیورڈ ورکر کے بیٹے کو اکیس سال کی عمر تک اور بیٹی کو شادی ہونے تک، اس کے علاوہ ورکر، اس کے والدین اور بیوی کو اس وقت تک جب تک کہ اس کا کنٹری بیوشن جمع ہوتا رہے گا یا ورکر کی موت کی صورت میں پسماندگان کو ہمیشہ یہ سہولت ملتی ہے۔ اس میں چھوٹی عام بیماریوں، نزلہ، زکام، بخار، کھانسی، پیٹ خراب وغیرہ کا علاج اور خون پیشاب وغیرہ کے عام ٹیسٹ فوراً شروع ہوجاتےہیں۔

مہنگے ٹیسٹ(سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، اینجیوگرافی وغیرہ)  اور وہ بیماریاں جن کا خرچ زیادہ ہے یا جو زندگی کی ساتھ چلتی رہتی ہیں (جیسے دل کی بیماریاں، شوگر بلڈ پریشر، فالج، ٹی بی، پھیپھڑوں، گردوں کی بیماریاں وغیرہ) ان کے علاج کی شرائط درج ذیل ہیں:

اگر 18ماہ اور اس سے زائد کا کنٹری بیوشن جمع ہے تو مکمل علاج مفت ہوگا۔

اگر 9ماہ سے زائد لیکن 18ماہ سے کم کا کنٹری بیوشن جمع ہے تو علاج بشمول مہنگے ٹیسٹ کا 50% ادارہ دے گا، باقی ورکر دے گا۔

اگر 9ماہ سے کم کا کنٹری بیوشن ہے تو علاج بشمول مہنگے ٹیسٹ کا مکمل خرچ ورکر خود برداشت کرے گا۔

اس اسکیم کے تحت لاکھوں فیکٹریوں کے مزدور اور ان کی فیملیاں اس ادارہ سے مفت علاج کی سہولت حاصل کر رہے ہیں۔ ایک بار ایک مریض کو خون کا کینسر تھا جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں تھا، ادارہ نے اس کی بیرون  ملک علاج کے لئے 45لاکھ کی منظوری  دی۔ یہ 2007ء کی بات ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ علاج پر کتنی ہی رقم کیوں نہ خرچ ہو، یہ محکمہ کی ذمہ داری ہے۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ گورنمنٹ نے مزدور طبقہ کے علاج کے لئے یہ طریقہ اپنایا ہے تاکہ گورنمنٹ پر علاج کا بوجھ نہ پڑے اور لاکھوں لوگوں کا علاج بھی ہوجائے اب صورتحال یہ ہے کہ گورنمنٹ اس محکمہ (پیسی) کو ایک روپیہ بھی نہیں دیتی اور تمام کا تمام روپیہ کنٹری بیوشن سے جمع کیا جاتا ہے یعنی نجی اداروں کے سربراہ اپنے اپنے ملازمین کی تعداد کے حساب  سے ماہانہ رقم جمع کرواتے ہیں۔ محکمہ اس رقم کو پی ایل ایس یعنی سودی اکاؤنٹ میں رکھتا ہے۔ اسی سے اپنے تمام ملازمین کی تنخواہ محکمہ کے دیگر اخراجات پورے کرتا ہے اور اسی سے ورکرز کوعلاج کی سہولیات دیتا ہے۔

اس وقت پورے صوبہ میں اس محکمہ کے بہت سے ہسپتال، میڈیکل سنٹر، ڈسپنسریاں اور ایمرجنسی سنٹر ہیں، جن کے ذریعہ  ’’سیکیورڈ ورکرز‘‘ کو علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

ان ہسپتالوں، ڈسپنسریوں، میڈیکل سنٹروں میں لاکھوں ڈاکٹر، نرسیں، ڈسپنسر و دیگر عملہ کام کرتا ہے جن کی تنخواہ پیسی دیتا ہے۔ اس کے  علاوہ دفتری و کاغذی کام کے لئے الگ شعبہ جات بھی قائم ہیں۔ ایک شعبہ خاص اس مقصد کے لئے قائم ہے کہ پورے صوبہ میں جہاں جہاں نجی ادارے قائم ہیں، ان کی نشاندہی کریں اور چیک کریں کہ وہاں کتنے مزدور کام کرتے ہیں اور کیا ان سب کی طرف سے ماہانہ کنٹری بیوشن جمع ہوتا ہے یا نہیں؟ اور جن نجی اداروں نے ابھی تک الحاق نہیں کیا، ان کو جرمانہ کریں اور ان کا الحاق کروائیں۔ اور اگر کوئی پھر بھی نہیں مانتا تو اس پر مقدمہ چلا کر اسے گرفتار کیا جائے۔

بتانے کا مقصد یہ ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے لازم ہے یعنی  ہر نجی ادارہ جس کے 5یا زائد ملازم ہوں، اس کے لئے الحاق کرنا اور اپنے تمام ورکز کی طرف سے کنٹری بیوشن جمع کروانا قانونا لازم ہے۔

اب تو گھریلو ملازمین کے لئے بھی قانون سازی ہوگئی ہے کہ محکمہ گھر کے مالک سے رقم لے گا اور ملازمین کو سہولیات دے گا، لیکن یہ ابھی نیا نیا ہوا ہے، اس پر ترغیب دی جارہی ہے۔ ابھی سختی نہیں کی جارہی۔

سولات:

ایک طرف تو اس ادارہ کا طریقہ کار انشورنس کے طریقہ سے ملتا جلتا ہے اور گورنمنٹ کے باقی اداروں کی طرح یہ بھی اپنے فنڈ سودی اکاؤنٹ میں رکھ کر اس پر سود حاصل کرتا ہے اور اس مخلوط رقم سے ہی تنخواہیں و مراعات اور ورکرز کو علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، دوسری طرف یہ ایک سرکاری ادارہ ہے جس کو قانون کا درجہ حاصل ہے اور الحاق نہ کرنے والوں کو جرمانہ اور گرفتار بھی کیاجاتا ہے  اور نجی ادارہ کو بندبھی کروایا جاسکتا ہے۔ نجی اداروں کے مالکان اس قانون پر عمل کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے مزدور اور ورکر خوش ہیں کہ اس مہنگائی میں کم از کم علاج معالجہ تو مفت مل رہا ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب درکار ہے:

  1. پیسی(پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن) میں ملازمت کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کے ملازمین کی تنخواہیں حلال ہیں؟ نیز اس کے ملازمین میں مختلف درجات ہیں یعنی دفتری اور کاغذی کام والے، ڈاکٹر، علاج کی مشینری خریدنے اور مرمت کروانے والے، صفائی والے، مریضوں کی خدمت کرنے والے، نرسیں، ہسپتال کے بجلی پانی گیس فرنیچر اے سی وغیرہ کی دیکھ بھال، مرمت اور خریدوفروخت والے، ادویات کی خرید و فروخت والے، ہسپتالوں کے مختلف شعبہ جات کے نگران وغیرہ کیا ان سب کی تنخواہ کا ایک ہی حکم  ہے یا الگ الگ ہے؟
  2. پیسی(پنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن) کے ساتھ الحاق کا کیا حکم ہے؟ چونکہ یہ قانونا لازم ہے تو اس سے گناہ تو لازم نہیں آتا؟ نیز مدارس بھی نجی ادارے شمار ہوتے ہیں اور ان پر بھی یہ قانون لاگو ہوتا ہے، خواہ ابھی اس طرح پکڑ دھکڑ اور چالان کا سلسلہ شروع نہ ہوا ہو۔۔۔ کیا مدارس والے اپنے ملازمین کی طبی سہولیات کے لئے الحاق کروائیں یا خلاف قانون الحاق نہ کروائیں؟ کس صورت میں گناہ کا زیادہ ڈر ہے؟ جبکہ بعض مدارس نے الحاق کروایا بھی ہوا ہے اور اگر گورنمنٹ نے دینی اداروں پر مزید سختی کی تو اس قانون پر بھی زبردستی عمل کا کہا جائے گا۔
  3. پیسی(پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن) کے ذریعہ علاج معالجہ و دیگر سہولیات لینے کا کیا حکم ہے جبکہ اس کی آمدن مشکوک و مخلوط ہے؟ سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے اس کے تمام ملازمین کے  علاج کی سہولیات مفت ہیں، نیز لاکھوں کروڑوں مزدور، ان کے والدین بیوی بچوں کا علاج اس شدید مہنگائی میں مفت ہوتا ہے۔ کیا پیسی کے ذریعہ علاج کی سہولت حاصل کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  • مذکورہ ادارہ میں ایسی ملازمت کرنا جس میں کوئی ناجائز کام(مثلا یہ ادارہ جو بینکوں سے سودی معاملہ کرتا ہے اس کا حساب کتاب ) کرنا نہ پڑے جائز ہے اور اس پر ملنے والی تنخواہ بھی جائز ہے وہ اداراہ جہاں سے بھی ادا کرے۔
  • چونکہ اس کے بارے میں حکومت کا ایک فعال قانون موجود ہے اور  وہ قانون مصلحت پر مبنی ہے اس لیے اس ادارہ سے الحاق کرنا جائز ہے۔
  • ملازموں کا اس ادارے سے سہولیات حاصل کرنا بھی جائز ہے یہ ادارے کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کا علاج حلال پیسوں سے کرے۔

نوٹ: مذکورہ صورت ہیلتھ انشورنس کی نہیں ہے کیونکہ مذکورہ صورت میں اصلاً صحت کی یہ سہولت حکومت کی طرف سے ہے اور حکومت نے ملازمین کی سہولت کے لیے الگ سے ایک ادارہ بنا دیا ہے البتہ اس کے اخراجات کے لیے  کاروباری اداروں کے مالکان پر لازم کر دیا ہے کہ ملازمین کی تعداد کے بقدر کچھ رقم جمع کروایا کریں ایسا نہیں ہے کہ اس ادارے کا اور کاروباری اداروں کا ملازمین کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ عقد ہوتا ہو کہ جتنے ملازمین کی طرف سے رقم جمع کروایا کریں گے تو ہم ان کا علاج کریں گے لہٰذا مذکورہ صورت مین ہیلتھ انشورنس کی نہیں بنتی۔

حاشية ابن عابدين (5/ 235) میں ہے:توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول وإليه ذهب الفقيه أبو الليث لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح  وقال الكرخي في الوجه الأول والثاني لا يطيب وفي الثلاث الأخيرة يطيب وقال أبو بكر لا يطيب في الكل لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس ا هـ وفي الولوالجية وقال بعضهم لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار لكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام ا هـ  وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرهاالمجلة (ص: 22) میں ہے:مادة 58 التصرف على الرعية منوط بالمصلحةالدر المختار (4/ 193) میں ہے:لما في قاعدة تصرف الإمام منوط بالمصلحة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved