- فتوی نمبر: 28-399
- تاریخ: 06 مارچ 2023
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہم مارکیٹ میں سونے کی خرید وفروخت کا کام کرتے ہیں، ہمارے کا م کا طریقہ یہ ہے کہ ہم نقد ریٹ مثلاً دو لاکھ روپےتولہ کے حساب سے سونا خریدتے ہیں اور کچھ نفع رکھ کر فروخت کردیتے ہیں اس کو ہم حاضر سودا کہتے ہیں ۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ایک ہفتے بعد سونا لینا ہے تو آپ ہمیں کیا ریٹ دو گے؟ وہ جو بھی ریٹ دیتے ہیں ہم ایک ہفتے بعد اس ریٹ پر اس سے سونا خرید لیتے ہیں ، یاد رہے کہ اس صورت میں بائع (بیچنے والا)اور مشتری(خریدار) اس سودے کے پابند ہوتے ہیں اور کوئی بھی سودے سے انکار نہیں کرسکتا، اگر کوئی فریق سودے سے انکار کرتا ہے یعنی خریدار یا بیچنے والا انکار کرتا ہے تو خریدار کے انکار کی صورت میں دیکھا جا تا ہے کہ اس دن کا حاضر ریٹ کیا ہے؟ اگر وہ حاضر ریٹ ایک ہفتے پہلے بُک کیے گئے ریٹ سے زیادہ ہو تو خریدار کو دونوں ریٹوں کے درمیان کا فرق دیدیا جاتا ہے (یاد رہے کہ ایسی صورت میں خریدار نے ابھی تک قیمت ادا نہیں کی ہوتی) اور اگر ریٹ کم ہوا تو خریدار کا نقصان سمجھا جاتا ہے اور خریدار کو دونوں ریٹوں کے درمیان فرق کے بقدر رقم ادا کرنی پڑتی ہے (1) کیا یہ صورت جائز ہے؟
بالکل یہی صورت حاضر سودے میں بھی پائی جاتی ہے یعنی دن کے ایک حصے میں ریٹ مختلف ہوتا ہے اور دوسرے حصے میں بھی مختلف ہوتا ہے تو ہم دن کے ایک حصے میں سونا خرید کر دوسرے حصے میں اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق بیچ دیتے ہیں یعنی نہ ہی خریدتے ہوئے قیمت ادا کرتے ہیں اور نہ ہی ہر حال میں سونے پر قبضہ کرتے ہیں بلکہ جس صورت میں سونے کا ریٹ چڑھ جاتا ہے تو وہ ہم وہی سونا اس دوکاندار کو دوبارہ فروخت کردیتے ہیں اور جس صورت میں ریٹ گرتا ہے تو اس صورت میں ہم اس سے سونا لے لیتے ہیں اور مہنگا ہونے پر فروخت کرتے ہیں ۔(2) کیا یہ صورت جائز ہے؟
اس میں یہ بات واضح رہے کہ ہمارے پاس سونا خریدنے کی صورت میں پیسے موجود ہوتے ہیں اور بیچنے کی صورت میں سونا موجود ہوتا ہے اگرچہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے پاس نہ سونا ہوتا ہے اور نہ ان کے پاس پیسے ہوتے ہیں۔ سونا اور پیسے موجود ہونے کے باوجود حسی/ فزیکل قبضہ اس لیے نہیں ہوتا کہ اتنی بڑی مقدار میں سونا اور رقم منتقل کرنے میں سکیورٹی رسک ہوتا ہے اور لانے لیجانے کی مشقت بھی ہوتی ہے اور اتنا وقت بھی نہیں ہوتا چنانچہ ہم سارا دن کاروبار کرکے اور کئی کئی مرتبہ خرید کر اور فروخت کرکے رات کو فرق برابر کرلیتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2) سوال میں مذکور دونوں صورتیں ناجائز ہیں اس لیے کہ اس میں سونے کی خرید و فروخت کے وقت نہ قیمت ادا کی جاتی ہے اور نہ ہی سونا لیا جاتا ہے حالانکہ روپوں کے عوض سونے کی خرید و فروخت کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس مجلس میں سودا کیا جائے اسی مجلس میں روپوں یا سونے میں سے کسی نہ کسی عوض پر حسی/فزیکل قبضہ کرلیا جائے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک پر بھی قبضہ نہ کیا جائےتو یہ ادھار کے بدلے میں ادھار کا سودا ہے اور شریعت کی نظر میں ایسا سودا درست نہیں ہوتا کیونکہ اس میں ادھار کا سود ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں (ص:248) میں ہے:
«وعن ابن عمر: أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الكالئ بالكالئ. رواه الدارقطني
وفي المرقاة تحته:
وذلك أن يشتري الرجل شيئا إلى أجل فإذا حل الأجل لم يجد ما يقضي يقول: بعنيه إلى أجل آخر بزيادة شيء فيبيعه منه، ولا يجري بينهما تقابض
الدر مع الشامی(7/55) میں ہے:
وصح بثمن حال ومؤجل الی معلوم ……..بخلاف جنسه ولم یجمعهما قدر لما فیه من ربا النساء ۔قوله(لما فیه من ربا النساء)قلت: بقی شرط آخر وهو ان لایکون المبیع الکیلی او الوزنی هالکا فقد ذکر الخیر الرملی اول البیوع عن جواهر الفتاوی له علی آخر حنطة غیر السلم فباعها منه بثمن معلوم الی شهر لایجوز لانه بیع الکالی بالکالی وقد نهینا عنه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved