• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سونے کی آن لائن تجارت

استفتاء

آج کل بہت سی کمپنیاں مختلف اشیاء مثلاً سونا، چاندی، کرنسی وغیرہ کی تجارت کرتی ہیں اور سرمایہ دار حضرات کے لیے بروکر کا کردار ادا کرتی ہیں۔ میں نے سونے کی تجارت کرنے والی ایک بروکر کمپنی سے طریقہ کار معلوم کیا جو کہ درج ذیل ہے۔ رہنمائی فرمائیں کہ مندرجہ ذیل صورت میں کاروبار شرعاً جائز ہے؟ کمپنی نے تاجر سے کہا کہ

1۔ آج کے دن سونے کی موجودہ قیمت 63000 روپے فی تولہ ہے۔

2۔ آپ ہم سے 3500 روپے فی تولہ کے حساب سے بکنگ کروائیں۔

3۔ آپ اور ہمارے درمیان دو ماہ کا معاہدہ ہوگا۔

4۔ اس دوران بازار کا اتار چڑھاؤ آپ کے سامنے ہوگا۔ اب بازار کی قیمتوں پر نظر رکھتے ہوئے آپ فیصلہ کریں گے کہ سونا بیچنا ہے یا انتظار کرنا ہے۔ اگر منافع ہو مثال کے طور پر بازار میں 500 روپے فی تولہ قیمت بڑھ گئی تو یہ 500 روپے فی تولہ آپ کے بکنگ والے 3500 روپے میں شامل ہو جائے گا۔ اور آپ سونا بیچنے کی آواز دے کر 4000 واپس وصول کرلیں گے۔      ( منافع بعض اوقات ایک دن میں بھی ہوجاتا ہے اور بعض اوقات کئی دن میں ہوتا ہے)۔

5۔ دو ماہ بعد معاہدہ کی تکمیل پر 3 صورتیں ہوں گی اور کوئی ایک صورت لازماً اختیار کرنی ہوگی۔

وہ تین صورتیں درج ذیل ہیں:

۱۔ آپ سونا واپس بیچ دیں۔ چاہے نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر معاہدہ کے آغاز پر سونے کی قیمت 63000 روپے فی تولہ تھی دو ماہ بعد معاہدہ کے اختتام پر قیمت 62500 روپے فی تولہ ہوگئی۔ اب یہ 500 روپے کا نقصان آپ کے بکنگ والے 3500 روپے سے تفریق ہوجائے گا۔ اور آپ سونا بیچنے کی آواز دے کر 3000 روپے وصول کرلیں گے۔

۲۔ دوسری صورت یہ ہوگی کہ آپ معاہدہ کی مزید دو ماہ کے لیے توسیع کروالیں۔ اس صورت میں کمپنی 100 روپے کمیشن لے گی ( عام طور پر لوگ معاہدہ میں توسیع نہیں کرواتے)۔

۳۔ تیسری صورت یہ ہوگی کہ آپ بقایا قیمت ادا کر کے اپنا سونا اٹھالیں۔ یعنی معاہدہ کے آغاز پر سونے کی قیمت 63000 روپے فی تولہ تھی۔ اور آپ نے 3500 روپے فی تولہ ادا کیے تھے۔ اب آپ بقایا رقم یعنی 59500 روپے فی تولہ ادا کر کے سونا اٹھالیں۔

6۔ دو ماہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے بھی تاجر نفع و نقصان کی بنیاد پر سونا بیچنے کی آواز دے سکتا ہے۔ نفع یا نقصان اس کے اپنے ذمہ ہوگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سونے کی آن لائن تجارت کا مذکورہ طریقہ درج ذیل شرعی خرابیوں پر مشتمل ہے اور ناجائز ہے:

1۔ سونے کی خرید و فروخت میں شرعی طور پر ضروری ہے کہ جس نشست میں سودا ہو رہا ہو اسی نشست میں یا تو پورے پیسے ادا کر دیے جائیں یا پورے سونے پر قبضہ حاصل کر لیا جائے ورنہ سودا ناجائز ہوگا۔ مذکورہ صورت میں موقع پر صرف 3500 روپے دیے جا رہے ہیں، نہ تو پورے پیسے دیے جارہے ہیں، نہ ہی پورے سونے پر قبضہ کیاجا رہا ہے۔

2۔ چونکہ عام طور سے اس طرح کی تجارت میں خریدار کا مقصد چیز خرید کر استعمال کرنا یا اپنے قبضہ میں لینا نہیں ہوتا بلکہ مدت پوری ہونے پر آپس کا فرق لینا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کاروبار ایک طرح کے سٹہ میں داخل ہوجاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سونے کی آن لائن تجارت کا مروجہ طریقہ جائز نہیں ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved