• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سونے کی چھج پر زکوۃ کا حکم

استفتاء

جناب مفتی صاحب ! السلام علیکم ۔ میرا نام ***ہے ، میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ  میں سونے کے زیور کی بنائی کا کام کرتا ہوں بنائی کرتے ہوئے ذرے زمین  پہ  گرتے  رہتے ہیں اور ایک سال کی مدت گزرنے کے بعد ہم ان کو اٹھا لیتے ہیں اور صاف  کر لیتے ہیں تو کچھ سونا نکل آتا ہے ۔ تو کیا اس سونے پر زکوۃ بنتی ہے یا نہیں ؟

مزید وضاحت: ہمارے پاس مٹی میں ملا ہوا سونا مکس ہوتا ہے یعنی کچھ ایسا ہوتا ہے جو اپنے ہی سونے کا کام کرتے ہوئے گر جاتا ہے اور کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہم دوسرے لوگوں کا کام کرتے ہیں تو ان کے سونے سے گرجاتا ہے اور ہم ایسے لوگوں سے کچھ پیسے بھی بطور اجرت کے لیتے ہیں لیکن عرف میں یہ سونا کاریگر کا ہی شمار ہوتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ سونے پر بھی زکوۃ واجب  ہو گی بشرطیکہ آپ صاحب نصاب ہوں ۔

توجیہ: جو ذرے آپ کے اپنے سونے سے گر جاتے ہیں ان کے آپ کے اپنے ہونے میں تو کوئی اشکال نہیں اور جو دوسروں کےسونے سے گرتا ہے وہ بھی آپ کا شمار ہو گا اور اس کی مثال درزی کے پاس بچ جانے والے معمولی کپڑے کی ہے  جس کو لوگ عموما درزی سے واپس نہیں مانگتے جس کی وجہ سے درزی کے لیے اس کو استعمال کرنا جائز ہوجاتا ہے لہذا جب یہ سب آپ کا ہے تو اس کی زکوۃ بھی آپ کے ذمے لازم ہو گی ۔

بحر الرائق (5/330) میں ہے :

ولو‌‌ اشترى ‌تراب ‌الصواغين بعرض إن وجد في التراب ذهبا أو فضة جاز بيعه؛ لأنه باع مالا متقوما، وإن لم يجد شيئا من ذلك لا يجوز؛ لأن التراب غير مقصود، وإنما المقصود ما فيه من الذهب والفضة، وقال أبو يوسف لا ينبغي للصائغ أن يأكل ثمن التراب الذي باعه؛ لأن فيه مال الناس إلا أن يكون الصائغ قد زاد الناس في متاعهم بقدر ما سقط منهم في التراب، وكذا الدهان إذا باع الدهن وبقي من الدهن شيء في الأوعية، كذا في الخانية۔

درر الحكام علی حیدر ، مادة: 353 میں ہے :

فان كانت شيأ يعلم ان صاحبها لا يطلبها كالنواة وقشر الرمان يكون القاؤه اباحة حتي جاز الانتفاع به بلا تعريف ولكنه يبقي علي ملك مالكه

بدائع الصنائع (2/18) میں ہے:

وأما صفة نصاب الذهب فنقول: لا يعتبر في نصاب الذهب أيضا صفة زائدة على كونه ذهبا فتجب الزكاة في المضروب والتبر والمصوغ والحلي إلا على أحد قولي الشافعي في الحلي الذي يحل استعماله والصحيح قولنا؛ لأن قوله تعالى {والذين يكنزون الذهب والفضة} [التوبة: 34] وقول النبي – صلى الله عليه وسلم – في كتاب عمرو بن حزم وحديث علي يقتضي الوجوب في مطلق الذهب. وكذا حكم الدنانير التي الغالب عليها الذهب كالمحمودية والصورية ونحوهما.

وحكم الذهب الخالص سواء لما ذكرنا. وأما الهروية والمروية وما لم يكن الغالب عليها الذهب فتعتبر قيمتها إن كانت أثمانا رائجة أو للتجارة، وإلا فيعتبر قدر ما فيها من الذهب والفضة وزنا؛ لأن كل واحد يخلص بالإذابة

فتاوی شامی ( 2/298) میں ہے :

(واللازم) مبتدأ (في مضروب كل) منهما (ومعموله ولو تبرا أو حليا مطلقا) مباح الاستعمال أو لا ولو للتجمل والنفقة؛ لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا۔

فتاوی رحیمیہ (10/160) میں ہے:

درزی کے پاس جو کپڑا بچا ہواگر وہ ایسی معمولی سی کترن ہو کہ کپڑے کے مالک خود اسے چھوڑ دیتے ہوں  اور سے نہ لے جاتے ہوں  تو ایسی معمولی کترن درزی استعمال کرلے تو کوئی حرج نہیں  گنجائش ہے کہ حکماً اجازت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved