• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سونے کی گھڑی پہننا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ سونا تو مرد پر حرام ہے۔ اگر ایسی کوئی گھڑی ہاتھ میں باندھ لی جائے جس کے اندر کی تینوں سوئیاں اور نمبرز کے نشانات اور اسی طرح اس کی مشینری سونے کی ہو تو کیا وہ بھی جائز نہیں ہے، جبکہ وہ جسم کے ساتھ مس بھی نہیں ہو رہی؟

وضاحت مطلوب ہے: کہ اس گھڑی میں سونے کی مقدار کتنی ہے؟

جواب وضاحت: سونے کی مقدار معلوم نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ گھڑی میں تین سوئیاں، نمبر اور سوئیوں کو چلانے والی مشینری ہی اصل مقصود ہوتی ہے اس لیے ایسی گھڑی استعمال کرنا جائز نہیں چاہے یہ سوئیاں اور مشینری جسم کے ساتھ مس ہو رہی ہو ں یا نہ ہورہی ہوں ،کیوں کہ مس کا مسئلہ اس صورت میں ہے جب سونے کا استعمال تبعا ہو

امدادالفتاوی 4/133 میں ہے:

سوال: جرمن سلور کا حکم چاندی ہی کا ہے یا نہیں٬ جس گھڑی کا کیس اسی چاندی کا ہو رکھنی جائز ہے یا نہیں،اگر کسی کے پاس ہو تو کیا کرے،قیمتی شے کو ضائع کرنے سے کسی تدبیر یا حیلہ سے بچا جاسکتا ہے یا نہیں،اگر اوپر لوہے یا پیتل وغیرہ کا خول چڑھوالے تو جائز ہو جائے گی،اس قسم کی گھڑی کی بیع کیوں جائز ہے٬ مسلمان کے ہاتھ بیچنا جبکہ معلوم ہو کہ وہ اس کو استعمال کرے گا اعانت علی المعصیت نہیں ہے زین اور قبضہ سیف وغیرہ موضع جلوس و قبض سے بچنے پر کیوں جائز ہوگیا فقہ میں ظرف کی قید نہیں بلکہ استعمال مثل ذلک ہے جس میں کحلہ وغیرہ بھی داخل ہے جو آلہ ہے ظرف نہیں غرض کوئی قاعدہ کلیہ فرمائیں جس سے جزئیات مستخرج ہوجائیں اور گھڑی کے بارہ میں اگر کوئی حیلہ نکل سکے بشرطیکہ صحیح ہو تو مسلمان کا مال بچ جائے؟

الجواب: جرمن سلور کی ماہیت اگر فضہ ہے تو حکم فضہ میں ہے ورنہ نہیں،مجھ کو اس کی ماہیت کی تحقیق نہیں اور جس گھڑی کا کیس چاندی کا ہو اس کا استعمال جائز نہیں قیاسا علی المرآۃ من الفضة،اور لوہے وغیرہ کا خول چڑھانا اس طرح سے کہ چاندی کا ظرف نظر نہ آئے ظاہراً جواز کے لئے کافی ہے۔

اخذا مما فی رد المختار عن التتارخانیة لا بأس بان یتخذ خاتم حدید قد لوی علیه فضة و البس بفضةحتی لا یری

(جلد5صفحه 354 )قلت والامر المشترک بینهما سترهالا یجوز بما یجوز فتامل

رہا بیع کا جواز و عدم جواز سو اس میں روایات فقہیہ بظاہر بہت متزاحم معلوم ہوتی ہیں:

چنانچہ در مختار میں ایک مقام پر ہے:

فاذا ثبت کراهةلبسها للتختم ثبت کراهة بیعها و صیغها لما فیه من الاعانة علی ما لا یجوز و کل ما ادی الی ما لا یجوز لا یجوز،

اور شامی میں اس میں تامل کیا ہے بقول ائمتنا(الخ) احقر کے نزدیک کراہت تنزیہی تو اس میں ضرور ہے رہا تحریمی سو اس کا قاعدہ روایات فقہیہ کہ جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز بجز معصیت کے اور کسی مباح غرض میں کام نہ آسکے اس کی بیع تو محرم ہےاور جو دوسرے کام میں بھی آسکے اس کی بیع میں تحریم نہیں

کما قال الشیخ عن ابن الشحنه آلا ان المنع فی البیع اخف منه فی اللبس اذ یمکن الانتفاع بها فی غیر ذلک (الخ)

اور منطقہ حلیئہ سیف علاوہ تبعیت کے بوجہ آثار کے بھی مستثنیٰ ہیں کما فی الھدایہ،اور سرج مفضض وغیرہ میں بشرط بچنے موضع فضہ کے اسلئے اجازت دی گئی ہے کہ تفضیض کو تابع قرار دیا ہے کما فی الہدایہ اور مکحلہ وغیرہ خود استعمال میں مستقل ہیں اسی طرح کیس  گھڑی کا گو قصد میں تابع ہے مگر وضع و ترکیب میں متبوع ہے جیسے آئینہ کا خانہ، اور اسی سے قاعدہ کلیہ سمجھ میں آ گیا ہوگا، اور حیلہ خول چڑھانے کا اوپر گذر چکا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved