• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سونے کی زکوٰۃ کی ایک صورت

استفتاء

میرے والد صاحب کی وفات ہوگئی ہے، میرے سگے بھائی نہیں ہیں،سوتیلے بھائی ہیں لیکن ہم لوگ ماموں  کے ساتھ رہتے ہیں اور ہمارا ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے کھانا ماموں کے ساتھ ہے، امی کے حصے کی زمین ہے  جو ماموں لوگوں کے پاس ہے ،نہ وہ زمین سے آمدنی دیتے ہیں اور نہ  زمین، میں ایک پرائیویٹ ٹیچر ہوں اور تقریبا دس ہزار تنخواہ ہے جس میں باقی کے خرچ بمشکل پورا کرتی ہوں، اس کے علاوہ ایک لاکھ روپے ہیں اور یہ لاکھ روپے  والدہ کی ملکیت ہیں۔

نوٹ:میری ملکیت میں نصاب کے بقدر سونا،نقدی وغیرہ کوئی چیز نہیں ۔

1۔میرا سوال یہ ہے کہ  گھر اور کھانے کے لیے خود سے ذریعہ معاش نہ ہونے کی صورت میں اگر ہمارے پاس تقریباً 14 تولہ سونا ہو تو کیا زکوٰۃ اور قربانی  ہم پر فرض ہے؟ جبکہ سونا میری شادی کے لیے رکھا گیا ہے کیونکہ باقی جہیز  کے لیے کوئی بھی چیز نہیں ہے۔

 2۔دوسرا سوال   یہ ہے کہ کیا  زمین کے امی کے نام ہونے کے باوجوداور امی کی ملکیت میں مذکورہ سونےکے باوجودلوگ مجھے زکوۃ دے سکتے ہیں؟ ایک اچھے خاندان میں سے  ہونے کی وجہ سے میں پسند نہیں کرتی لیکن ماموں لوگ ایسا سمجھتے ہیں۔

3۔تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت حال میں  امی سے شادی کا کہنا اور یہ کہنا کہ زمین میرے نام کرواؤ جائز ہے؟ جبکہ وہ دونوں باتوں سے پریشان ہوتی ہیں

4۔چوتھا سوال یہ ہے کہ کچھ سال پہلے ماموں کو ایک لاکھ روپے اس لیے دیے کہ وہ کاروبار میں شامل کردیں اور منافع پیسوں کے مطابق مجھے دیں لیکن وہ ہر ماہ ایک ہزرا روپے دیتے رہے لیکن مجھے یہ سود لگتا ہے اور میں نے لینے چھوڑ دئیے ۔کیا یہ فکس ایک ہزار دینا سود میں شمار ہوتا ہے؟

تنقیح: میں دو باتوں کی وضاحت کرناچاہتی ہوں(1) سونا امی کا ہے اور ماموں کے پاس ہے سونے کا  صحیح پتا  نہیں کہ وہ کتنا ہے  اندازہ یہ ہے کہ 12 سے 14 تولے کے درمیان ہوگا۔ (2) باقی اخراجات سے مراد روٹی کے علاوہ باقی تمام اخراجات ہیں مثلاً کپڑے جوتے وغیرہ

5۔پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا میں ان حالات میں پیسے بینک میں رکھوا کر منافع لے سکتی ہوں؟

وضاحت مطلوب ہے:(1) امی کے مذکورہ باتوں سے پریشان ہونے کی وجہ کیا ہے؟(2)امی سے کس کی شادی کا کہنا ہے ،اپنی  شادی کا  یاامی کی شادی کا؟(3) اگر امی آپ کے نام زمین کروادیتی ہیں تو آپ کیا کریں گی؟

جواب وضاحت:(1)امی کے  پریشان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں اس لیے وہ پریشان ہوجاتی ہیں بیٹی کی ماں ہونے کے ناطے، کیونکہ ہمیں یہاں معاشی مسائل کے علاوہ بھی بہت مسائل ہیں ،انہیں کسی اور کے ساتھ رہنا مشکل ہے اور زمین  بھی ماموں نہیں دیتے۔ ہم ماموں کے پاس رہتے ہیں تو نہ ہی گھر اپنا اور نہ ہی کھانا اپنا،کسی کے ساتھ رہنا اور ان کا کھانا بہت مشکل  ہے، جب تک کوئی فکر نہ کرے  یا ساتھ نہ دے تو شادی بھی نہیں ہوسکتی  ،کیونکہ ہمارا خاندانی گھر ہے،ہم عورتیں گھر سے باہر بھی اکیلی نہیں جاتیں ،ہمیں سہارا چاہیئے ،اس کے علاوہ مسائل کا او ر کوئی حل نہیں ،جو میری تنخواہ ہے اس سے کھانا نہیں کھایا جاسکتاچہ جائیکہ بقیہ اخراجات۔(2)اپنی شادی کا ۔(3) اپنے نام ہونے کی صورت میں، میں کوئی بھی تصرف کرسکتی ہوں جبکہ فی الحال کچھ نہیں کرسکتی ، نیزمیں ایک ہی بیٹی ہوں، اگر زمین نام نہیں کروائیں گے تو قانون کے تحت آدھی زمین  ماموں لوگوں کے پاس جائے گی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں زمین پر زکوۃ نہیں آئے گی،البتہ آپ کی والدہ کے ذمے سونے اور ایک لاکھ روپے کی زکوۃ فرض ہو گی اور آپ کی والدہ پر  قربانی بھی واجب ہوگی تاہم چونکہ آپ کی ملکیت میں فی الحال نصاب کے بقدرکوئی چیز نہیں اس لیے آپ پر نہ زکوۃ واجب ہوگی نہ قربانی(2) مذکورہ صورت میں اگر کوئی از خود یعنی آپ کے مانگے بغیر آپ کو (نہ کہ آپ کی امی کو) زکوۃ دینا چاہے تو دے سکتا ہے تاہم آپ کیلئے زکوۃ مانگنا جائز نہیں ۔نیز اگر آپ کو زکوۃ لینا پسند نہیں تو آپ انکار کرسکتی ہیں(3)جائز ہے۔(4)عام طور سے اس طرح سے لینا سود بنتا ہے تاہم اگرآپ کے ماموں کاروبار اور منافع اور پھر منافع میں سے آپ کے حصے کی تفصیل بتائیں تو ہوسکتا ہے کہ مذکورہ صورت سود کی نہ بنے۔(5) مذکورہ حالات میں آپ میزان بینک میں  پیسے رکھوا کر  منافعلے سکتی ہیں۔

درمختار(3/270)میں ہے:

(واللازم) مبتدأ (في مضروب كل) منهما (ومعموله ولو تبرا أو حليا مطلقا) مباح الاستعمال أو لا ولو للتجمل والنفقة؛ لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا (أو) في (عرض تجارة قيمته نصاب) ۔۔۔۔۔۔۔(من ذهب أو ورق) أي فضة مضروبة، فأفاد أن التقويم إنما يكون بالمسكوك عملا بالعرف (مقوما بأحدهما) إن استويا،۔۔۔۔۔ (ربع عشر) خبر قوله اللازم

در مختار مع رد محتار (3/333)میں ہے:

باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة (قوله: أي دون نصاب) أي نام فاضل عن الدين، فلو مديونا فهو مصرف كما يأتي (قوله: مستغرق في الحاجة) كدار السكنى وعبيد الخدمة وثياب البذلة وآلات الحرفة وكتب العلم للمحتاج إليها تدريسا أو حفظا أو تصحيحا كما مر أول الزكاة

درمختارمع رد محتار (6/484)میں ہے:

(وتفسد باشتراط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لقطع الشركة كما مر لا لأنه شرط لعدم فسادها بالشرط، وظاهره بطلان الشرط لا الشركة بحر ومصنف. قلت: صرح صدر الشريعة وابن الكمال بفساد الشركة ويكون الربح على قدر المال

قوله: (لا؛ لأنه شرط إلخ) يعني أن علة الفساد ما ذكر من قطع الشركة وليست العلة اشتراط شرط فاسد فيها؛ لأن الشركة لا تفسد بالشروط الفاسدة، والمصرح به أن هذه الشركة فاسدة، فقوله قلت: إلخ تأييد لقوله لا؛ لأنه شرط إلخ.وأما قوله وظاهره: أي ظاهر قوله لعدم فسادها بالشروط فلا محل له للاستغناء عنه بما قبله (قوله: ويكون الربح على قدر المال) أي وإن اشترط فيه التفاضل؛ لأن الشركة لما فسدت صار المال مشتركا شركة ملك والربح في شركة الملك على قدر المال وسيأتي في الفصل أنها لو فسدت وكان المال كله لأحدهما فللآخر أجر مثله

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved