- فتوی نمبر: 31-162
- تاریخ: 22 جولائی 2025
- عنوانات: مالی معاملات > سود
استفتاء
اگر ایک انسان 20 لاکھ روپے کا ایک گھر لے کر کرائے پر چڑھا دے او ر20 لاکھ روپے بینک میں جمع کرا کے ماہانہ نفع لیتا رہے تو کیا ان دونوں صورتوں میں ملنے والی رقم سود ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پہلی صورت سود کی نہیں جبکہ دوسری صورت سود کی ہے۔
اسلام کا نظام تقسیم دولت، مؤلفہ مفتی شفیع صاحب(31،32) میں ہے:
معیشت کے مادی وسائل دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک تو وہ جنہیں استعمال کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں خرچ نہیں کرنا پڑتا، بلکہ وہ اپنا وجود بر قرار رکھتے ہوئے فائدہ دیتے ہیں مثلاً ز میں مشنری، فرنیچر ، سواری وغیر ہ ۔۔۔۔ دوسری طرف ان کے استعمال سے ان کی قدر گھٹتی ہے۔ اس لیے ان کے منافع کی اجرت کا لین دین بالکل معقول اور درست ہے۔
اس کے برخلاف نقد روپیہ وہ چیز ہے جس سے فائدہ حاصل کرنے لیے اسے خرچ یا فنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ دوسری طرف مقروض کے استعمال کی وجہ سے روپیہ کی قدر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، اس لیے اس پر کوئی معین شرح سود مقرر کرنے میں کوئی معقولیت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved