- فتوی نمبر: 21-183
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں ایک شخص جس کی کمائی حرام کی ہے اور وہ مسجد میں کچھ رقم دیتاہے کیا حرام کمائی والے کی یہ رقم مسجد میں لگانا شرعا جائز ہے؟
وضاحت مطلوب ہے کہ (1)حرام کمائی سے کیا مراد ہے ؟اسے واضح کریں(2)کیا اس کی جائز آمدنی بالکل نہیں ہے؟ مکمل آمدنی حرام ہی ہے؟
جواب وضاحت: 1)حرام مال سے مراد سود کے پیسے، رشوت کے پیسے، جوئے کے پیسے(2)بالکل نہیں ہے۔
مولانا شفیق صاحب
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ رقم مسجد میں لگانا جائز نہیں۔
شامی جلد نمبر 2 صفحہ 520 میں ہے:
لو بماله الحلال لامن مال الوقف فانه حرام
قوله ( لو بماله الحلال ) قال تاج الشريعة أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب فيكره تلويث بيته بما لا يقبله ا هـ
فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد نمبر 13 صفحہ 398میں ہے:
سوال سود لینے والے کا پیسہ مسجد میں لگانا اور اس کے گھر کا کھانا درست ہے یا نہیں؟
جواب :اس کا نہ کھانا درست ہے اور نہ مسجد میں لگانا درست ہے۔
و فیہ
جواب :مسجد میں سود کی آمدنی کا روپیہ لگانا اور مشتبہ مال لگانا مکروہ وممنوع ہے۔
فتاوی محمودیہ جلد نمبر 15 صفحہ 106 میں ہے:
سوال :تقریبا پندرہ سال ہو گئے ہیں ،ہماری مسجد میں سود خوروں کے پیسے سے بجلی کی فٹنگ اور پنکھا لگا ہوا
ہے ۔شرعا حرام ہے یا نہیں؟
جواب:ناجائز آمدنی کا پیسہ مسجد میں لگانا درست نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved