- فتوی نمبر: 1-147
- تاریخ: 28 دسمبر 2006
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری حقیقی والدہ کی وفات کے بعد میرے والد محترم نے دوسری شادی کی ( بیوہ سے) جن سے تین بیٹے حیات ہیں۔ ( میرے سوتیلے بھائی)۔ میرے والد صاحب نے جب دوسری شادی کی تو میری میری سوتیلی والدہ کوئی سامان وغیرہ نہیں لائی تھی۔ اور میری حقیقی والدہ کی وفات کے بعد ان کا جو سامان بمعہ زیورات تھا دوسری والدہ صاحبہ سوتیلی کے پاس آگیا۔ اور جب تک والد صاحب کے ساتھ رہیں انہوں نے اپنا تمام سامان ایک کمرے میں رکھتی تھیں اور چابیاں زندگی بھر کسی کو نہ دیتی تھیں۔ 14 نومبر 2006ء کو میری ( سوتیلی) والدہ صاحبہ وفات پاگئیں۔ اللہ پاک ان کو جنت الفردوس کی نعمتیں نصیب فرمائے۔ والد محترم الحمد للہ حیات ہیں۔ اور سات، آٹھ ماہ سے بیمار ہیں اور میرے پاس ہیں۔ سوتیلی والدہ کا وہ سامان ( اثاثہ) جو والد صاحب اور والدہ مرحومہ کا مشترکہ تھا کس طرح تقسیم ہوگا۔ تاکہ کسی حقدار کا حق ضائع نہ ہو۔ نیز اس سامان کو ایک بھائی نے والد صاحب کی اجازت کے بغیر اور ہمارے مشورے کے بغیر تالے کھول کر اپنے قبضے میں لے لیا ہے یہ عمل ان کا درست ہے ؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب تفصیل سے مرحمت فرمائیں۔ ہم تمام بھائی اپنے گھروں میں الگ سے رہتے ہیں۔
وضاحت مطلوب ہے: مشترکہ مال سے کیا مراد ہے؟
جواب: وہ تمام مشترکہ مال جو والد صاحب کے پیسوں سے خریدا گیا تھا حقیقتاً وہ والدہ کا نہ تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو سامان آپ کی والدہ کا تھا اس میں سوتیلے بھائیوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور جو کچھ سامان سوتیلی والدہ کا تھا اس میں آپ کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور جو سامان آپ کے والد کی ملکیت میں ہے خواہ وہ گھر کا سامان یا زیورات ہی ہوں کہ والدہ کے پیسے سے خریدے گئے ہوں وہ والد کا ہے وہ اپنی زندگی میں چاہیں تو تمام وارثوں میں برابر تقسیم کردیں ورنہ ان کی وفات کے بعد وہ ان کے وارثوں میں شرعی حساب سے تقسیم ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved