- فتوی نمبر: 8-293
- تاریخ: 15 مارچ 2016
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
ہم کل 9 بہن بھائی ہیں۔ جن میں سے تین بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ میرے والد صاحب تقریباً 30 سال پہلے وفات پا چکے ہیں۔ ان کے ترکہ میں 2 دکانیں اور تین ایکڑ زرعی اراضی تھی، اور اس کے علاوہ ایک مکان ہے جس کی رجسٹری 6 بہنوں کے نام ہے۔ آج سے تقریباً 20 سال پہلے بڑے بھائی نے دکانیں اور زرعی زمین فروخت کر کے تمام وارثین کو شرعی حصہ دیدیا اور مکان کے بارے میں بہنوں سے سوال کیا کہ کیا وہ مکان سے اپنے حصہ لینا چاہتی ہیں؟ تو 5 بہنوں نے حصہ لینے سے انکار کیا۔ لیکن میں نے اپنا حصہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اب چند ماہ پہلے میں نے اپنے مکان کے حصہ کا تقاضا کیا تو بھائی نے کہا کہ میں نے تمام بہن بھائیوں سے ساڑھے سات لاکھ روپیہ قرض لینا ہے۔ یہ تمام قرضہ آپ مکان کے حصہ سے ادا کریں۔ میں نے آج تک بھائی سے نہ تو نقدی کی صورت میں اور نہ ہی اشیاء کی صورت میں کسی قسم کا کوئی قرضہ لیا ہے۔ میں نے جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے بھائی کا قرضہ مکان کے حصہ سے کاٹ کر دینے کو تسلیم کر لیا ہے۔ اور یہ کہ بھائی نے کہا کہ قرضہ کافی دیر کا ہے، اس لیے اب یہ قرضہ حاضر وقت سونے کے حساب سے واپس لینا ہے۔ تو کیا یہ سود کی شکل ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی آپ قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرما کر مشکور فرمائیں۔
چند وضاحتیں: 1۔ بڑا بھائی تمام بہن بھائیوں پر 750000 قرض کا دعویٰ 1997ء سے کر رہا ہے، اور سائلہ بہن چند ماہ پہلے اپنے حصے کے قرض کے دعوئے کو تسلیم کر رہی ہے۔
2۔ بڑا بھائی اس بہن سے سونے کی صورت میں یا سونے کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے روپوں کی صورت میں اپنا قرضہ وصول کرنا چاہتا ہے اور اسی پر بضد ہے۔ 1997ء کی قیمت کے اعتبار سے اپنا قرضہ وصول نہیں کر رہا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں سائلہ کا کہنا ہے کہ میرے ذمے بھائی کا کوئی قرضہ نہیں ہے، لیکن سائلہ محض جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے بھائی کے دعوے کے مطابق اپنے حصے کے قرضے کوچکانا چاہتی ہے اور بھائی یہ قرضہ سونے کے موجودہ ریٹ کے مطابق لینے پر ہی بضد ہے تو ایسی صورت حال میں بہن کے لیے موجودہ سونے کے ریٹ کے مطابق ادائیگی جائز ہے۔ چونکہ بہن کے مؤقف کے مطابق بہن کے ذمے قرضہ ہے ہی نہیں، اس لیے بہن کے حق میں یہ زیادتی سود نہ بنے گی۔ البتہ بھائی کے لیے یہ جائز نہیں کہ اگر قرضہ ہے ہی نہیں تو وہ بہن سے محض جھوٹا دعوی کر کے کچھ رقم لے یا قرضہ تو ہے لیکن وہ یہ قرضہ موجودہ سونے کے ریٹ کے مطابق وصول کرنے پر ضد کرے۔
و في البدائع: (5/ 53):
فإن صالح من دراهم على دراهم فهذا لا يخلو من ثلاثة أوجه: إما أن صالح على مثل حقه، و إما أن صالح على أقل من حقه، و إما أن صالح على أكثر من حقه ……….. و لو حمل على المعاوضة يؤدي إلى الربا لأنه يصير بائعاً ألفاً بخمسمائة و أنه رباً فيحمل على استيفاء بعض الحق و الإبراء عن الباقي و لا يشترط القبض و يجوز مؤجلاً، لأن جوازه ليس بطريق المعاوضة ليكون صرفاً.
و لو صالح على أكثر من حقه قدراً و وصفاً بأن صالح من ألف نبهرجة على ألف و خمسمائة جياد أو صالح على أكثر من حقه قدراً لا وصفاً بأن صالح من ألف جياد على ألف و خمسمائة نبهرجة لا يجوز لأنه رباً لأنه يحمل على المعاوضة هنا لتعذر حمله على استيفا.ء البعض و إسقاط الباقي.
و فيه أيضاً (5/ 58):
و كذلك حكم الصلح عن إنكار المدعى عليه و سكوته بحكم الصلح عن إقراره في جميع ما
وصفنا هذا الذي ذكرنا إذا كان بدل الصلح مالاً عيناً أو ديناً.
و في المبسوط (20/ 147):
و عند الإنكار المعطي يؤدي المال لقطع المنازعة و الخصومة و يفدي به يمينه فلا يتمكن فيه الربا على ما بينه.
و في إعلاء السنن (16/ 7-6):
و قولهم: إنه معاوضة قلنا : في حقهما أم في حق أحدهما؟ الأول ممنوع و الثاني مسلم، و هذا لأن المدعي يأخذ عوض حقه من المنكر لعلمه بثبوت حقه عنده فهو معاوضة في حقه و المنكر يعتقد أنه يدفع المال لدفع الخصومة و اليمين عنه و يخلصه من شر المدعي، فهو إبراء في حقه و غير ممتنع ثبوت المعاوضة في حق المتعاقدين دون الآخر …. و لا يجوز أن يأخذ من جنس حقه أكثر مما ادعاه، لأن الزائد لا مقابل له فيكون رباً، و الأخذ ظالما بأخذه و إن أخذ من غير جنسه جاز و يكون بيعاً في حق المدعي لاعتقاده أخذه عوضاً … و يكون في حق المنكر بمنزلة الإبراء، لأنه دفع المال افتداء ليمينه و دفعاً للضرر عنه لا عوضاً عن حق يعتقده…………….. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved