- فتوی نمبر: 4-4
- تاریخ: 28 مارچ 2011
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
***کی بیٹی نے گھر سے بھاگ کر ایک غیر مسلک لڑکے کے ساتھ عدالت میں جاکر نکاح کر لیا ہے اور لڑکے کا تعلق اہل تشیع سے ہے اور لڑکی اور اس کے والدین کا تعلق دیوبند مسلک سے ہے۔ بوقت نکاح سے لے کر اب تک نہ تو لڑکی شیعہ ہوئی ہے اور نہ ہی لڑکا سنی ہوا ہے۔ کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ یہ نکاح جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شیعہ لڑکا سنی لڑکی کا کفؤ نہیں ہے اور بالغ لڑکی اگر ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کر لے تو وہ صحیح نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا۔ والدین چاہیں تو مذکورہ لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کر سکتے ہیں۔
ثم المرأة إن زوجت نفسها من غير كفؤ صح النكاح في ظاهر الرواية و روى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله أن النكاح لا ينعقد و به أخذ كثير من مشائخنا كذا في المحيط و المختار في زماننا للفتوى رواية الحسن و قال الشيخ الإسلام شمس الأئمة السرخسي رحمه الله رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط. (عالمگیری: 1/ 296 )
و يفتى في غير الكفؤ بعدم جوازه أصلاً و هو المختار للفتوى لفساد الزمان. ( در مختار: 4/ 152 )
امداد الفتاویٰ میں ہے:
” شیعہ بوجہ فسق اعتقادی کے سنیہ کو کفو نہ ہوگا اور غیر کفو میں نکاح کرنے میں تفصیل یہ ہے ۔۔۔ اگر منکوحہ بالغ ہے اور اس نے خود اپنا نکاح کر لیا ہے اور ولی عصبہ راضی نہیں تب بھی نکاح صحیح نہیں ہوا”۔ ( 2/ 227 )
امداد الاحکام میں ہے
” و اگر زن سنیہ بدون اجازت ولی از خود نکاح بایں چنیں رافضی کندہم باطل شود و حاجت طلاق نیفتد بدون طلاق بمرد دیگر از اہل سنت نکاح می تواند کرد”۔ (2/ 204 ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved