• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تعنت اور تشدد کی بنیاد پر عدالتی خلع

استفتاء

ہم نے اپنی بیٹی کی شادی کی، داماد شروع میں ٹھیک تھا، محنت مزدوری کرتا تھا، بعد میں بُری صحبت کی وجہ سے نشہ کی عادت میں مبتلا ہو گیا، جو کچھ تھا سب لٹا دیا، ہم نے اپنے پاس سے متعدد بار اس کو رقم دے کر کاروبار کروایا، بچی کو رقم اور راشن وغیرہ دے کر گھر بسانے کی کوشش کی، لیکن اس شخص نے کسی چیز کو اہمیت نہ دی اور غلط عادت سے باز نہ آیا، یہاں تک کہ نشے کے انجیکشن لگانے کی عادت پڑ گئی، اور بیوی بچوں سے بے پرواہ ہو گیا، بیوی بچے خرچہ مانگتے تو تشدد کرتا۔ (منہ پر تھپڑ مارتا، پیٹ پر لاتیں مارتا اور سارا دن کمرے میں بند رکھتا)۔ برداشت کرتے، تو فاقہ پر فاقہ ہوتا گیا، لیکن ہماری بیٹی نے بہت ہمت کی، بالآخر جب معاملہ سنگین ہو گیا تو بیٹی نے کہا "ابو بس اب میں مزید یہ عذاب نہیں سہ سکتی، اب صرف مہینے  میں فیصلہ لینا ہے”، ہم نے  بہت کوشش کی، لیکن بچی نے کہا : آٹھ سال سے میں یہ ظلم برداشت کر رہی ہوں، اب میری ہمت نہیں۔

ابھی ہم نے لڑکے سے کہا ہماری بچی کو فارغ کر دو۔ اب وہ فارغ بھی نہیں کر رہا تھا، خرچہ بھی نہیں اٹھا رہا تھا، ہم نے مجبور ہو کر عدالت کی طرف رجوع کیا، عدالت نے اس لڑکے کو اپنی ترتیب کے مطابق نوٹس کیے، لیکن وہ کسی تاریخ پر نہ آیا، ہمیں کہتا کہ میں عدالت میں نہیں جاؤں گا، ویسے صلح کر لو۔ ہم کہتے رہے کہ صلح کرنی ہے یا خلع دینا ہے، عدالت میں آکر بات کرو، لیکن وہ نہ آیا، بعد میں کیس یونین کونسل  کو ریفر ہوا، انہوں نے بھی اپنی کاروائی مکمل کر لی، لیکن وہ یہاں بھی نہ آیا، بالآخر عدالت کی طرف سے بھی اور یونین کونسل کی طرف سے ہمیں سرٹیفیکیٹ مل گئے، کہ اب بچی آزاد ہے، آپ کو اختیار ہے، بچی کی کہیں اور شادی کرنا چاہیں تو آپ کو کوئی قانونی طور پر روک نہیں سکتا۔ یہ ساری بات لڑکے کے علم میں بھی لائی گئی ہے۔

اس بات کو ایک سال کا عرصہ گذر گیا ہے، پورے ایک سال میں لڑکے نے کوئی رابطہ نہیں کیا، ہم نے بھی کوئی بات اس سے نہیں کی۔ اب ہم بچی کا رشتہ کہیں اور جگہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سے از روئے شرع پوچھنا ہے کہ ہم کوئی بھار گناہ تو نہیں ہو گا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالت نے اگرچہ خلع کی بنیاد پر نکاح فسخ کیا ہے، اور خلع یکطرفہ معتبر نہیں، لیکن چونکہ یہاں فسخ نکاح کی معتبر شرعی بنیاد (تعنت اور غیر معمولی تشدد) موجود ہے، اس لیے نکاح فسخ سمجھا جائے گا۔ (بحوالہ فتاویٰ عثمانی: ج/ 2)

پھر چونکہ عدت بھی گذر چکی ہے، اس لیے عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved