• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تبدلِ مجلس سے سجدہ تلاوت کا حکم

استفتاء

جو بچے حفظ کرتے ہیں ان کی منزل یا سبق سبقی  میں جو سجدہ  آجاتا ہے اس کا کیا حکم ہے بار بار پڑھتے ہیں یاد کرتے ہوئے ایک ہی سجدہ کرنا ہوگا یا جتنی مرتبہ پڑھا ہے اتنے ہی سجدے کرنے ہوں گے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایک آیت سجدہ کو باربار پڑھنے سے ایک سجدہ تلاوت واجب ہوگا   بشرطیکہ درمیان میں کسی اور کام میں مشغول نہ ہو  مثلا درمیان میں گفتگو (دو کلموں سے زیادہ)  یا کھانے پینے(دولقموں  یا دو گھونٹ سے زیادہ )میں مشغول نہ  ہو ا ور نہ ہی اٹھ  کر کسی دوسری جگہ جائے  البتہ اگر کسی کمرہ وغیرہ کی لمبائی چوڑائی 60،60فٹ سے  کم ہو  تو ایک جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ جانے سے فرق   نہیں پڑے گا۔

تنویر الابصار مع درالمختار (712/2) میں ہے:

(ولو كررها (أي سجدة التلاوت: از ناقل) ‌في ‌مجلسين تكررت وفي مجلس) واحد (لا) تتكرر بل كفته واحدة … وفي البحر التأخير أحوط والاصل أن مبناها على التداخل دفعا للحرج ‌بشرط ‌اتحاد الآية والمجلس.

تنویر الابصار مع درالمختار (715,716/2) میں ہے:

(فتجب) سجدة أو سجدات (أخرى) بخلاف زوايا مسجد وبيت وسفينة سائرة وفعل قليل كأكل لقمتين وقيام ورد سلام.

في الشامي:تحت قوله:(قوله فتجب سجدة أو سجدات) أي بقدر تعدد التلاوة، وقوله أخرى صفة سجدة ويقدر لقوله أو سجدات صفة غيرها أي أخر ففيه حذف الصفة لدليل وإقحام المعطوف بين المعطوف عليه وصفته.

(قوله بخلاف زوايا مسجد) أي ولو كبيرا على الأوجه۔ وكذا البيت، وفي الخانية والخلاصة إلا إذا كانت الدار كبيرة كدار السلطان. اهـ. حلية وظاهر أن الدار التي دونها لها حكم البيت وإن اشتملت على بيوت، ثم قال في الحلية: ثم الأصل على ما في الخانية والخلاصة أن كل موضع يصح الاقتداء فيه بمن يصلي في طرف منه يجعل كمكان واحد ولا يتكرر الوجوب فيه وما لا فلا، فعلى هذا لو كانت الشجرة أو تسدية الثوب أو التردد في الدياسة أو حول رحا الطحن ونحو ذلك فيما له حكم المكان الواحد كالمسجد ينبغي أن لا يتكرر الوجوب بتكرير التلاوة. اهـ.

قلت: هو بحث وجيه، لكن ظاهر إطلاقهم خلافه ولعل وجهه أن الانتقال من غصن إلى غصن والتسدية ونحو ذلك أعمال أجنبية كثيرة يختلف بها المجلس حكما كالكلام والأكل الكثير لما مر من أن المجلس يختلف حكما بمباشرة عمل يعد في العرف قطعا لما قبله، ولا شك أن هذه الأفعال كذلك وإن كانت في المسجد أو البيت بل يختلف بها حقيقة لأن المسجد مكان واحد حكما وبهذه الأفعال المشتملة على الانتقال يختلف حقيقة بخلاف الأكل فإن الاختلاف فيه حكمي، وعلى كل يتكرر الوجوب ولذا قيد في الواقعات الانتقال من غصن إلى غيره بما إذا احتاج إلى نزول كما قدمناه أي ليكون عملا كثيرا.

والحاصل أن ما له حكم المكان الواحد كالمسجد والبيت لا يضر الانتقال فيه بأكثر من ثلاث خطوات ما لم يقترن بعمل أجنبي يعد في العرف قطعا لما قبله كالدياسة والتسدية، بخلاف مجرد المشي من غير عمل بل إطلاق كلامهم يدل على أن ذلك العمل الأجنبي كالأكل الكثير والبيع والشراء يضر هنا، ولو بدون مشي وانتقال حيث لم يقيدوه بغير المسجد والبيت ومقتضاه تكرار الوجوب لو فصل بين التلاوتين بعمل دنيوي كخياطة وحياكة ولو كان في المسجد أو البيت في مكان واحد ولهذا قال في البدائع في تحقيق اختلاف المجلس حكما بالبيع ونحوه، ألا ترى أن القوم يجلسون لدرس العالم فيكون مجلس الدرس ثم يشتغلون بالنكاح فيصير مجلس النكاح، ثم بالبيع، فيصير مجلس البيع، ثم بالأكل فيصير مجلس الأكل فصار تبدله بهذه الأفعال كتبدله بالذهاب والرجوع. اهـ.

شامی (713/2) میں ہے:

(قوله والأصل أن مبناها) أي السجدة وهذا استحسان والقياس أن تتكرر لأن التلاوة سبب للوجوب شرنبلالية.

(قوله دفعا للحرج) لأن في إيجاب السجدة لكل تلاوة حرجا خصوصا للمعلمين والمتعلمين وهو منفي بالنص بحر

(قوله ‌بشرط ‌اتحاد الآية والمجلس) أي بأن يكون المكرر آية واحدة في مجلس واحد، فلو تلا آيتين في مجلس واحد أو آية واحدة في مجلسين فلا تداخل ولم يشترط اتحاد السماع لأنه إنما يكون باتحاد المسموع فيغني عنه اشتراط اتحاد الآية، وأشار إلى أنه متى اتحدت الآية والمجلس لا يتكرر الوجوب وإن اجتمع التلاوة والسماع ولو من جماعة ففي البدائع لا يتكرر، ولو اجتمع سببا الوجوب وهما التلاوة والسماع بأن تلاها ثم سمعها أو بالعكس أو تكرر أحدهما. اهـ. وفي البزازية: سمعها من آخر ومن آخر أيضا وقرأها كفت سجدة واحدة في الأصح لاتحاد الآية والمكان اهـ ونحوه في الخانية، فعلى هذا لو قرأها جماعة وسمعها بعضهم من بعض كفتهم واحدة.

شامی(2/402)میں ہے:

«(قوله كمسجد وبيت) فإن المسجد مكان واحد، ولذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء إلا إذا كان المسجد كبيرا جدا وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء كما قدمناه عن القهستاني.

شامی(2/401)میں ہے:

«[تتمة]في القهستاني: البيت كالصحراء. والأصح أنه كالمسجد ولهذا يجوز الاقتداء فيه بلا اتصال الصفوف كما في المنية اهـ ولم يذكر حكم الدار فليراجع، لكن ظاهر التقييد بالصحراء والمسجد الكبير جدا أن الدار كالبيت تأمل. ثم رأيت في حاشية المدني عن جواهر الفتاوى أن قاضي خان سئل عن ذلك، فقال: اختلفوا فيه، فقدره بعضهم بستين ذراعا، وبعضهم قال: إن كانت أربعين ذراعا فهي كبيرة وإلا فصغيرة، هذا هو المختار. اهـ. وحاصله أن الدار الكبيرة كالصحراء والصغيرة كالمسجد، وأن المختار في تقدير الكبيرة أربعون ذراعا. وذكر في البحر عن المجتبى أن فناء المسجد له حكم المسجد، ثم قال: وبه علم أن الاقتداء من صحن الخانقاه الشيخونية بالإمام في المحراب صحيح وإن لم تتصل الصفوف لأن الصحن فناء المسجد، وكذا اقتداء من بالخلاوي السفلية صحيح لأن أبوابها في فناء المسجد إلخ، ويأتي تمام عبارته. وفي الخزائن: فناء المسجد هو ما اتصل به وليس بينه وبينه طريق. اهـ»

شامی(2/426)میں ہے:

«(قوله أو الدار) كذا أطلقها في الزيلعي والبحر. والظاهر أن المراد منها الصغيرة لما قدمناه في موانع الاقتداء أن الصغيرة كالمسجد والكبيرة كالصحراء وأن المختار في تقدير الكبيرة ‌أربعون ‌ذراعا

فتاوی محمودیہ(14/385)میں ہے:

جو مسجد چالیس گز(شرعی) اور اتنی ہی چوڑی ہو وہ مسجد کبیر ہے جو اس سے چھوٹی   ہو وہ مسجد صغیر ہے۔

عمدۃ الفقہ(2/196)میں ہے:

۔۔چھوٹا مکان (گھر)مسجد کے حکم میں ہے یہی  اصح ہے  اور اس میں بھی صفوں  کے اتصال کے بغیر اقتداء  صحیح ہے  اور بڑا مکان میدان  کے حکم میں ہے اور بڑا مکان ایک قول کے بموجب وہ ہے  جو ساٹھ گز شرعی کا ہو    اور صحیح و مختار وقول کے  بموجب  وہ ہے جو چالیس گز شرعی یا اس سے زیادہ کا ہو ،اس سے کم کا ہو  تو چھوٹا ہے۔

جواہر الفقہ(3/421)میں ہے:

۔۔اور یہ ذراع  انگریز ی گز سے نصف یعنی ڈیڑھ فٹ یا ۱۸ انچ کا ہوتاہے۔۔

عمدۃ الفقہ(2/395)میں ہے:

سجدہ تلاوت کیلئے تداخل کا بھی حکم ہے یعنی ایک سجدہ کا دوسرے سجدہ کے تابع ہوکر  ایک ہی سجدہ کافی ہونا تاکہ حرج دور ہوجائے کیونکہ ہر تلاوت  پر  سجدہ واجب کرنے میں حرج ہے  خصوصا سیکھنے اور سکھانے والوں پر دقت ہوگی جو شرعا مرفوع ہے اور تداخل کی بنا یہ ہے کہ آیت اور مجلس متحد ہو یعنی ایک ہی آیت کو ایک ہی مجلس میں مکرر  پڑھنے یا سننے سے  ایک ہی سجدہ سب کیلئے کافی ہوگا۔اسی طرح اگر ایک آیت کو خود  پڑھا اور اسی کو اسی مجلس میں  کسی دوسرے سے سنا تب بھی ایک ہی سجدہ واجب ہوگا ۔۔۔پس اگر تلاوت کرنے والا ایک ہی آیت کو  پڑھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے یا اس کے برعکس یعنی پہلے سنتا ہے  پھر پڑھتا ہےیا مکرر پڑھتا     ہے یا مکرر سنتا ہے تو دونوں کے عوض ایک ہی سجدہ کافی ہے۔

عمدۃ الفقہ(2/398)میں ہے:

اگر عمل قلیل کیا مثلا  ایک دو لقمہ کھانا کھایا  یا ایک دو گھونٹ پانی پیا  یا ایک دوکلمہ بات کی یا بیٹھا تھا اور کھڑا ہوا یا کھڑا تھا اور بیٹھ گیا  یا ایک دو قدم چلا یا  بیٹھ  کر سویا یا سلام کا جواب دیا  یا چھینک کا جواب دیا  تو ان سب صورتوں میں مجلس تبدیل نہیں ہوگی کیونکہ یہ کام عرف کام میں مجلس  کو توڑنے والے نہیں سمجھتے ۔اور اگر عمل کثیر کیا  مثلا تین لقمے  یا زیادہ کھایا،یا تین گھونٹ یا زیادہ پیا،یا تین کلمے یا زیادہ  کلام کیا  یا لیٹ کر سویا   یا نکاح کیا  یا خریدو فروخت کی  یا کسی اور طرح کا کام  مثلا کپڑا سینا وغیرہ کیا  یا تین قدم یا زیادہ چلا ہ چلا ،تو مجلس بدل جائے گی اور مکرر تلاوت سے مکرر سجدہ واجب ہوگاکیونکہ عرف میں یہ کام اتحاد مجلس کو توڑنے والے شمار ہوتے ہیں  اور ان کاموں سے مجلس کا نام  بدل جاتا ہے پس عرف کے مطابق مجلس بھی بدل جائے گیاور سجدہ تلاوت اسی مجلس  کی طرف مضاف ہوگا جس مجلس میں تلاوت کی گئی ہے اگرچہ وہ مکان واحد ہی ہومثلا اگر کوئی شخص  مسجد یا مکان میں ایک ہی جگہ کھانا کھاتا ہےتو اب اس کی یہ مجلس کھانے کی طرف منسوب ہوگیاور پھر اسی جگہ سبق پڑھتا ہےتو اب یہ مجلس درس ہے  اور پھر اسی طرح خریدو فروخت میں لگ جاتا ہےتو یہ مجلس بیع ہے وغیرہ فافہم۔

مسائل بہشتی زیور(1/241)میں ہے:

مسئلہ :ایک کوٹھڑی  یا کمرے یا دالان کے ایک کونے  میں سجدہ کی کوئی  آیت پڑھی اور پھر دوسرے کونے میں جاکر  وہی آیت پڑھی تب بھی ایک سجدہ کافی ہے  چاہے جتنی دفعہ پڑھے ۔البتہ دوسرے کام میں لگ جانے کے بعد  وہی آیت پڑھے  تو دوسرا سجدہ  کرنا پڑے گا ۔۔

مسئلہ:مسجد خواہ بڑی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے  جو ایک کوٹھری کا حکم  ہے اگر سجدہ کی آیت کئی دفعہ پڑھے  تو ایک ہی سجدہ  واجب  ہےچاہے ایک ہی  جگہ بیٹھے بیٹھے دہرایا کرے  یا مسجد میں ادھر ادھر  ٹہل کر پڑھے۔

  مسئلہ:اگر بڑا گھر ہو  تو دوسرے کونے میں جاکر دوہرانے سے دوسرا  سجدہ واجب ہوگا اور تیسرے کونے میں تیسرا سجدہ۔

مسائل بہشتی زیور (241/1) میں ہے:

مسئلہ:استاد مختلف طالب علموں سے اگر ایک ہی مجلس میں ایک ہی آیت سنے تو استاد پر صرف ایک ہی سجدہ واجب ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved