• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

طہر متخلل اور استحاضہ کی حالت میں نماز کا حکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب!

مسئلہ یہ ہے کہ ایک عورت کو ایامِ عادت میں تین دن سے کم اور ایک دن سے زیادہ خون آیا اور پھر بند ہو گیا پھر دس دن سے پہلے ساتویں دن ایام عادت میں ہی دوبارہ خون آیا اور دس دن سے تجاوز کر گیا گذشتہ عادت آٹھ دن کی تھی سوال یہ ہے کہ ایام عادت میں جن دنوں میں خون بند رہا ان دنوں کی نمازوں کا کیا حکم ہے اور ایام عادت کے بعد جن دنوں میں خون آتا رہا ان دنوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ب

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں گذشتہ عادت کے مطابق آٹھ دن حیض کے شمار ہوں گے اور باقی دن (جو حیض کے آٹھ دنوں کے علاوہ ہیں) وہ استحاضہ کے شمار ہوں گے کیونکہ جو  خون ایامِ عادت شروع ہونے کے بعد اور ختم سے پہلے بند رہا وہ طہر ناقص ہے اس کا اعتبار نہیں ہے گویا کہ خون مسلسل جاری رہا۔ اس لیے پہلے آٹھ دنوں کی نماز ساقط ہو گی۔ ان آٹھ دنوں کے علاوہ باقی جتنے دن استحاضہ کا خون آتا رہا ان دنوں کی نماز پڑھنی پڑے گی۔

ذخر المتاہلین (22) میں ہے:

(والطهر الناقص كالدم المتوالي لا يفصل) بل يجعل  الكل حيضاً إن لم يزد على العشرة وإلا فالزائد عليها أو على العادة استحاضة (مطلقاً) أي سوء كان أقل من ثلاثة أيام وهو بالاتفاق أو أزيد.

فتاویٰ تاتارخانیہ (1/486) میں ہے:

ان الطهر إذا تخلل بين الدمين ولا يجاوز العشرة فالطهر والدم كلاهما حيض وإن جاوز العشرة…. وفي المعتادة معروفتها حيض وما زاد على ذلك استحاضة

ذخر المتاہلین (92) میں ہے:

أما أحكام الحيض … الأول: حرمة الصلاة والسجدة مطلقاً.

ایضاً (104):

والاستحاضة فحدث أصغر كالرعاف … أما الأول: فكالنفاس إلا أنه لا يسقط الصلاة ولا يحرم الصوم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved