• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تحریری طلاق کی صورت میں شوہر کی نیت کا اعتبار

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ بندہ کے چھوٹے بھائی  کا اپنی سابقہ سے عدالتی طلاق نامہ ہوا۔ جس وقت یہ واقعہ ہوا اس وقت لڑکے کی رضامندی نہ تھی لیکن بوجہ غصہ لڑکی والوں کے اصرار کی وجہ سے دستخط کرنا پڑے۔اب جبکہ اس بات کو چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیاہے، دونوں طرف سے پچھتاوہ ہو رہا ہےاور لڑکی والے بھی اور لڑکے والے بھی چاہتے ہیں کہ دین کی روشنی میں دوبارہ رجوع کی اگر کوئی صورت حال ہو تو رہنمائی کی جائے اور یہ طلاق نامہ کے جو مندرجات ہیں جو درج ذیل ہیں:

( ’’دریں وجہ مورخہ 2018-06-30 کو من مقرر برو گواہان اپنے بقائمی ہوش و حواس خمسہ بلا جبر و اکراہ بلا ترغیب غیرے تحریری طور پر طلاق ثلاثہ یعنی طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں دے کر اپنی زوجیت سے ہمیشہ کے لیے فارغ کرتا ہوں آج کے بعد مسماۃ مذکور  یہ میری بیوی نہ رہی ہے)

وہ بھی قابل عمل ہیں یا کے نہیں؟ اب جب کہ لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر میں ہے اور لڑکا اپنے ماں باپ کے گھر میں ہے ۔بندہ آپ کا بے حد مشکور ہوں گا۔

توضیح مزید:

پہلے سے فریقین کی باہمی رضامندی سے ایک کاغذ تیارہوا جس کا عنوان خلع نامہ تھا (جو ساتھ منسلک ہے)مگر یونین کونسل والوں نے کہا کہ ہم اسے قبول نہیں کرتے ہمارے طریقہ پر طلاق دیں۔اس کے جواب میں تین طلاقوں والاکاغذا تیار ہوا پھر مزید یہ کہ خاوند نے تین ماہ میں الگ الگ بھی ایک ایک طلاق سادہ کاغذ پر لکھ کردی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت منسلکہ تحریر ی طلاق نامے کے مطابق خاوند نے تینوں طلاقیں دے دی ہیں، اس لیے تینوں طلاقیں  واقع ہوگئی ہیں، نکاح مکمل طور سے ختم ہوگیا ہے، اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش۔

واضح رہے کہ جب طلاق باضابطہ تحریر کی صورت میں (مرسوم) ہو اور خاوند پر کوئی دباؤ بھی نہ ہو تب خاوند کی نیت کا اعتبار نہیں ہوتا۔

نوٹ: مذکورہ صورت میں خاوند نے اکٹھی تین طلاقیں تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ تین ماہ میں الگ الگ بھی طلاقیں دی ہیں، اس لیے تینوں طلاقوں کے واقع ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔

عن مجاهد قال كنت عندابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال أنه طلق امرأته ثلاثاً فسكت حتى ظننت أنه سيردها إليه فقال ينطلق أحدكم فيركب الأحموقة ثم يقول ياابن عباس ياابن عباس إن الله قال ومن يتق الله يجعل له مخرجاًوإنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجاً عصيت ربك وبانت منك امرأتك.(ابوداؤد:حدیث نمبر:۲۱۹۷)

ترجمہ:(مشہور تابعی)حضرت مجاہدرحمہ اللہ کہتے ہیں میں  صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس (بیٹھا) تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو(ایک وقت میں ) تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیا کوئی گنجائش ہے۔ اس پر) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کچھ دیر خاموش رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہواکہ (شاید کوئی صورت سوچ کر) وہ اس کی بیوی اس کو واپس دلا دیں گے( لیکن ) پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے اور حماقت پر سوار ہوجاتا ہے (اورتین طلاقیں دے بیٹھتاہے اور)پھر(میرے پاس آکر)اے ابن عباس اے ابن عباس (کوئی راہ نکالیے ) کی دہائی دینے لگتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں ومن يتق الله يجعل له مخرجاً(جوکوئی اللہ سے ڈرے تواللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں) تم تو اللہ سے ڈرے ہی نہیں(اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے۔ تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ( اس لیے تمہارے لیے خلاصی کی کوئی راہ نہیں) اور تمہاری  بیوی تم سے جدا ہوگئی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved