- فتوی نمبر: 17-173
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: عبادات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مکتب میں قاری صاحب طلباء کرام کو لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے غنہ مد وغیرہ نہ کروائیں ،طلباء کرام کو وقف کی نشاندہی نہ کروائیں ،موٹے حروف کو موٹا کرنے کی نشاندہی اور مشق نہ کروائیں،نرم حروف کو نرمی سے اور سیٹی والے حروف کو سیٹی سے نہ پڑھائیں ،حروف قلقلہ پر قلقلہ کی نشاندہی نہ کروائیں ،لفظ اللہ کو موٹا نہ کروائیں ،راء کو جن صورتوں میں موٹا پڑھتےہیں وہاں موٹا نہ پڑھوائیں تو کیا شرعا قاری صاحب گناہگار ہونگے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قاری صاحب اگر طلبہ کو غنہ کی جگہ غنہ ،وقف کی جگہ وقف نہ کروائیں یا موٹے حروف ،نرم حروف ،سیٹی والے حروف ،حروف قلقلہ کی نشاندہی اور لفظ اللہ اور راء کو موٹا باریک نہ کروائیں یا ان صورتوں کی نشاندہی اور مشق نہ کروائیں تو قاری صاحب گناہگار نہ ہونگے کیونکہ یہ امور مستحبات میں سے ہیں۔
البتہ مد کی کئی صورتیں ہیں جن میں ایک مد اصلی ہے (جیسے پیش کے بعد واؤ ،زیر کے بعد یاءاور زبر کے بعد الف آجائے اس کی مقدار دو دفعہ زبر ،زیر ،پیش جتنی ہے)۔
اگر یہاں قاری صاحب مد کی مقدار کے مطابق مد نہ کروائیں تو قاری صاحب گناہگار ہونگے ۔اس کے علاوہ مد کی تمام اقسام فرعی ہیں ان کے نہ کرانے میں قاری صاحب گناہگار نہ ہونگے۔
البتہ قاری صاحب کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ طلبہ کو قران تجوید کے ساتھ پڑھائیں اور غنہ ،مد، حروف مفخم ،حروف ترقیق ،حروف قلقلہ ۔نرمی والے حروف اورسیٹی والے حروف یہ تمام تجوید کی تکمیل میں سے ہیں اس لیے اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنے پر قاری صاحب گناہگار ہونگے۔
المنح الفكریۃص112 میں ہے:
فالجلي:خطأ يعرض للفظ و يخل بالمعنى، و الاعراب کرفع المجرور و نصبه و نحوهما سواء تغیر المعنی به ام لا ، و الخفی:خطا یخل بالحرف کترک الاخفاء و القلب و الاظهار والادغام و الغنة و کترقیق المفخم و عکسه و مد المقصور و قصر الممدود و امثال ذلک ،لاشک ان هذا النوع مما لیس بفرض عین یترتب علیه العقاب الشدید و انما خوف العقاب و التهدید.
دوسری جگہ (ٍص239 )میں ہے:
ثم اعلم ان الفرق المذکور بین اللازم و الواجب اصطلاحی فانه لایجوز قصر احدهما عند جمیع القراء ، فلو قرئ بالقصر یکون لحنا جلیا و خطا فاحشا لما ثبت عن النبی ﷺ بالطرق المتواترة ، و کذا اذا زاد فی المد الاصلی و الطبیعی حده العرفی من قدر الف بان جعله قدر الفین او اکثر ، کما یفعله اکثر الائمة من الشافعية و الحنفية فی الحرمین الشریفین فی الحرم المحترم فانه قبیح محرم لاسیما و قد یقتدی بهم بعض الجهلة ،واما اذا قصر المنفصل جاز … ثم اعلم ان الزیادة علی المقدار الوارد فی حد المد ایضا ممنوع .
دوسری جگہ(116 )میں ہے:
فینبغی ان یراعی جمیع قواعدهم وجوبا فیما یتغیر به المبنی ، و یفسد المعنی و استحبابا فیما یحسن به اللفظ و یستحسن به النطق حال الاداء و انما قلنا بالاستحباب فی هذا النوع لان اللحن الخفی الذی لایعرفه الا مهرة القراء من تکریر الراء و تطنین النونات و تغلیظ اللامات فی غیر محلها و ترقیق الراءات فی غیر موضعها .
عمدۃ الفقہ 151/1 میں ہے:
مد کی دو قسمیں ہیں(۱)اصلی:یہ بلا سبب کے ہوتا ہے۔اس کی مقدار ایک الف کے برابر ہوتی ہے۔یعنی ضمہ یا فتحہ یا کسرہ سے دوگنی،اس سے کم کرناشرعا حرام ہے۔
کیونکہ یہ مقدار ایسی ضروری اور لازمی ہےکہ اگر اس کو ادا نہ کیا جائے تو حروف مدہ کی ذات باقی نہیں رہتی بلکہ ایک حرف کم رہ کر لفظ مہمل اور بے معنی ہوجاتا ہےجو لحن جلی اور حرام ہے مثلا لَاهُن كو لَهن يا رَحْمٰن كو رَحْمَن پڑھنا بے معنی اور حرام ہے۔
احسن الفتاوی86/3 میں ہے:
سوال:ایک قاری صاحب فرماتے ہیں کہ تجوید ِقران فرض بدونِ تجوید پڑھنا حرام ہے؟
الجواب:حروف متشابہ ظاء ،ضاد ،ذال ،زاء،سین، صاد ،ثا،تا اور طا میں فرق سیکھنا فرض ہے۔تجوید کے دوسرے قواعد مثلا اخفاء ،اظہار ، تفخیم اور ترقیق وغیرہ کا سیکھنا مندوب ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved