- فتوی نمبر: 33-193
- تاریخ: 21 جون 2025
- عنوانات: عبادات > متفرقات عبادات
استفتاء
1۔نماز میں تکیرات انتقال کا صحیح وقت کونسا ہے؟ پہلے تکبیر پھر انتقال یا اس کے برعکس یا دونوں اکٹھے یا نصف انتقال کے بعد تکبیر ؟ اور اگر صحیح طریقے کے خلاف عمل ہو تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ حرام ، مکروہ تحریمی یا تنزیہی؟
2۔اگر ٹی وی یا ریڈیو کے ذریعے عید کی شہادتیں موصول ہونے کی خبر مل چکی ہو اور غالب گمان یہی ہو کہ عید کا اعلان ہوجائے گا لیکن اعلان کسی سبب سے تاخیر کا شکار ہو تو تراویح پڑھ لینا چاہیے یا انتظار کرنا چاہیے؟ اور اگر پڑھ لیں پھر عید کا اعلان ہوگیا تو غیر رمضان میں باجماعت نوافل کا گناہ تو نہیں ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔نماز میں تکبیرات انتقال کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انتقال اور تکبیر دونوں ایک ساتھ شروع ہوں اور دونوں ایک ساتھ ختم ہوں یعنی جیسے ہی انتقال شروع ہو تکبیر شروع کی جائے اور جیسے ہی انتقال ختم ہو تکبیر بھی ختم ہو۔ ا سکے خلاف کرنا خلاف سنت اور مکروہ تنزیہی ہے۔
2۔دونوں طرح کرسکتے ہیں نیز اگر پڑھ لیں تو نفل جماعت کا گناہ نہ ہوگا۔
شامی(1/460) میں ہے:
يكبر مع الانحطاط للركوع افاد ان السنة كون ابتداء التكبير عند الخرور وانتهائه عند استواء الظهر
ہندیہ (1/73) میں ہے:
ويكبر مع الانحطاط كذا فى الهداية قال الطحطاوى وهو الصحيح كذا فى معراج الدراية فيكون ابتداء تكبيره عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للركوع.
کبیری (1/357) میں ہے:
(ويكره) ان يأتى بالاذكار المشروعة فى الانتقالات بعد الانتقال بان يكبر للركوع بعد الانتهاء الى حد الركوع ويقول سمع الله لمن حمده بعد تمام القيام.
البحر الرائق (2/34) میں ہے:
ثم اعلم أن المصنف لم يستوف ذكر المكروهات في الصلاة فمنها أن كل سنة تركها فهو مكروه تنزيها كما صرح به في منية المصلي من قوله ويكره وضع اليدين على الأرض قبل الركبتين إذا سجد ………… وأن يأتي بالأذكار المشروعة في الانتقالات بعد تمام الانتقال وفيه خللان تركها في موضعها وتحصيلها في غير موضعها ذكره في مواضع متفرقة من مكروهات الصلاة.
خیر الفتاویٰ (2/256) میں ہے:
سنت یہ ہے کہ رکوع کو جاتے ہوئے جھکتے ہی تکبیر شروع کردیں اور رکوع میں پہنچ کر ختم کردیں اور ایسے ہی باقی مقامات میں۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (24/1658) میں ہے:
تکبیراتِ انتقالیہ کے سلسلے میں سنت یہ ہے کہ دورانِ انتقال ہی تکبیر مکمل کرلی جائے، اس طرح کہ ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے تکبیر یا تسمیع وغیرہ شروع کرے اور انتقال کے اختتام کے ساتھ ساتھ تکبیر یا تسمیع بھی مکمل کرے، انتقال مکمل ہونے کے بعد اگلے رکن میں تکبیرات ادا کرنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔
2۔البحر الرائق (2/73) میں ہے:
وفى فتاوى قاضيخان ويستحب تأخير التراويح الى ثلث الليل والافضل استيعاب اكثر الليل بالتراويح فان اخروا بها الى ما بعد نصف الليل فالصحيح انه لا بأس به.
مراقی الفلاح(ص:157) میں ہے:
التراويح سنة على الرجال والنساء وصلاتها بالجماعة سنة كفاية وقتها بعد صلاة العشاء ويصح تقديم الوتر على التراويح وتأخيره عنها ويستحب تأخير التراويح إلى ثلث الليل أو نصفه.
البحر الرائق (2/283) میں ہے:
ويثبت رمضان برؤية هلاله أو بعد شعبان ثلاثين يوما) لحديث الصحيحين «صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غم عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين يوما.
فتاوی حقانیہ (3/ 276)ميں ہے:
سوال: ہمارے علاقے میں اکثر تیس رمضان کو شوال ہوتا ہے اگر صحیح شہادت نہ ملے تو اسی رات کو تراویح کی نماز پڑھنی چاہیے کہ نہیں؟ اگر پڑھنی چاہیے تو معمول کے مطابق یا رات کے آخر حصہ میں؟
جواب تراویح رمضان البارک کا وظیفہ ہے جب عید الفطر کا حکم نہ ہوا ہو روزہ اورتراویح دونوں معمول بہ ہوں گے لہذا اگر شوال کا احتمال بھی ہو تو تراویح اپنے مقررہ وقت پر ادا کی جائے گی تاہم اگر آخری شب میں عید الفطر کا چاند دیکھنے کی خبر آجاے تو تراویح نفل میں تبدیل ہو جائے گی۔عن ابن عباس رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تصوموا قبل رمضان صوموا لرؤيته وافطروا لرؤيته.[معارف السنن،5/336]
فتاوی فریدیہ (2/681) میں ہے:
سوال :کیا فرماتے ہیں علمائےدین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں اکثر 30 رمضان کو شوال ہوتا ہے کیا اس تقدیر پر کہ نہ کوئی شہادت ہو نہ قوی علامات ہو تیس رمضان کے شب کو تراویح پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ اگر پڑھنی چاہیے تو مقررہ وقت پر یا رات کے آخری حصے میں؟ کیا وتر کو باجماعت پڑھیں گے یا بغیر جماعت کے؟ اگر عید الفطر ہوا تو وتر کا اعادہ لازم ہے یا نہیں ؟ اور اگر شہادتیں نہ ہوں لیکن قوی علامات موجود ہو پھر کیا حکم ہے؟
جواب: اس رات کو شوال ہونے کے احتمال ہمیشہ اور ہر وقت ہوتا ہے لہذا جب تک شوال کا حکم نہ ہوا ہو تو تراویح اور وتر باجماعت ادا کیے جائیں گے اور وتر کا اعادہ نہ تو لازم ہے نہ مستحب ہے اور علامات مثلا شہر سے حسب عادت بندوقوں کی آواز پر اعتماد صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved