• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم میراث کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام نگہت ہے میری پہلی شادی ہونے کے دو سال  بعد میں ایک بیٹے کے ساتھ بیوہ ہو گئی کچھ عرصہ بعد دوسری شادی ہوئی  اس شوہر کی پہلی بیوی دو بچے چھوڑ کر مر گئی تھی ، چنانچہ میرے پہلے شوہر سے بیٹا اور دوسرے شوہر کی پہلی بیوی کی دو بیٹیاں ہم دونوں میاں بیوی نے پرورش کیں۔ پھر دوسرے شوہر سے میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے، میرے دوسرے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا ہے تقریبا 18 سال پہلے، میرے شوہر کو ریٹائر ہونے کے بعد ان کے محکمےسے دو لاکھ کی رقم ملی تھی ،پھر وہ فوت ہو گئے ،اس رقم سے میں نے گروی مکان لیا اور بچوں کی پرورش کرتی رہی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ

  1. میں ان دو لاکھ کو اپنے شوہر کے بچوں میں کس حساب سے تقسیم کروں گی؟.میرا کتنا حصہ ہوگا؟ بیٹی کا حصہ کیا ہوگا؟. بیٹوں کا کتنا حصہ ہوگا؟
  2. کیا یہ 18 سال پہلے والے دو لاکھ تقسیم ہوں گے یا آج کل کے پیسے کی شرح سے تقسیم ہوں گے؟

اب میرے پاس 2 لاکھ کی رقم بھی موجود نہیں ہے کیونکہ وہ مکان خریدنے میں استعمال کر لی تھی جو کہ میرے پہلے شوہر کے بیٹے نے خریدا تھا لیکن میری نیت شروع ہی سے بچوں کو حصہ دینے کی تھی اور میں دینا چاہتی ہوں اپنے پر عذاب نہیں لینا ہے۔

3.اگر میرے پہلے شوہر کا بیٹا یا دوسرے شوہر کے بیٹے مل کر مجھے یہ رقم دیں تو کیا میں بچوں کو اس رقم سے حصہ دے سکتی ہوں یا شوہر کی پینشن سے جمع کرکے حصہ تقسیم کروں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.مذکورہ صورت میں ان دو لاکھ میں سے 25000 مرحوم کی بیوہ کو،25000ہر بیٹی کواور 50000ہربیٹے کو ملیں گے۔

2۔دو لاکھ ہی تقسیم ہوں گے۔

3.وہ اپنی خوشی سے دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔صورت تقسیم یہ ہے:

8

بیوی————                       2بیٹے                                        —————3بیٹیاں

1/8          ———————                                  عصبہ

1————–                          2،2———–                8/7———–                1،1،1

25000————-  فی بیٹا50000                                      ————–فی بیٹی25000

نوٹ:اس تقسیم میں آپ کا وہ بیٹا شامل نہ ہو گا جو آپ کے پہلے شوہر سے ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved