- فتوی نمبر: 33-285
- تاریخ: 03 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > صریح و کنایہ دونوں طرح کے الفاظ سے طلاق دینا
استفتاء
محترم مفتی صاحب میں اپنی ازدواجی زندگی کے ایک نازک معاملے کے بارے میں شرعی رہنمائی کا خواہشمند ہوں۔ مؤدبانہ گزارش ہے کہ درج ذیل واقعات کی روشنی میں فتوی مرحمت فرمائیں کہ آیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوئی ہے تو کتنی مرتبہ اور کس درجے کی؟ پہلا واقعہ چند سال پہلے ایک جھگڑے کے دوران میں نے صاف اور واضح الفاظ میں کہا “میری طرف سے طلاق ہے” اس وقت میری نیت طلاق دینے کی تھی پھر ایک ماہ کے اندر صلح ہو گئی تھی۔
دوسرا واقعہ نومبر 2024 کے شروع میں اہلیہ نے شدید غصے میں میرا کالر پکڑ کر کہا “مجھے آزاد کر دو “مجھے اتنا اندازہ تو تھا کہ وہ کسی حد تک طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن یہ بات واضح اور صاف الفاظ میں طلاق کے مطالبے کے طور پر نہیں کہی گئی تھی میں نے ان کی بات مانتے ہوئے جواب دیا “جاؤ، تم آزاد ہو “اس وقت میرے دل میں نہ تو طلاق کی نیت تھی نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اگلے دن جب اہلیہ نے مجھے کچھ ویڈیوز بھیجیں تو مجھے پتہ چلا کہ ممکن ہے ان الفاظ سے بھی طلاق واقع ہوگئی ہو چونکہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے تو جلد ہی صلح ہو گئی۔
تیسرا واقعہ جنوری2025 کے شروع میں جب اہلیہ اپنی والدہ کے گھر چلی گئی تو میں نے کئی بار واٹس ایپ پر “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” یا “میری طرف سے طلاق ہے” جیسے پیغامات ٹائپ کیےاور لکھتے وقت نیت طلاق کی ہی تھی لیکن میں نے انہیں کبھی بھی بھیجا نہیں ہمیشہ بھیجنے سے پہلے ہی ڈیلیٹ کر دیے۔
چوتھا واقعہ مارچ2025 ایک اور جھگڑے میں جب اہلیہ نے کہا “مجھے چھوڑ دو میں کسی اور سے شادی کر لوں گی” تو میں نے جواب دیا “جاؤ کر لو میری طرف سے اجازت ہے” اس وقت میرے دل میں یہی احساس تھا کہ میں مزید اس تعلق کو نہیں نبھا سکتا ۔
مزید وضاحت ان واقعات کے درمیانی عرصے میں بھی اہلیہ کی طرف سے بارہا طلاق کا مطالبہ آیا میں نے صبر سے کام لیا اور الفاظ یا عمل میں طلاق نہیں دی ۔براہ کرم ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں کہ آیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اور اگر ہوئی ہے تو کتنی ؟
بیوی کا موقف :
چند سال قبل شوہر نے جھگڑے کے دوران ایک دفعہ مجھے کہا کہ ” میری طرف سے طلاق ہے” اس کے بعد پانچ چھ دنوں میں رجوع ہو گیا تھا ۔دوسرا واقعہ نومبر 2024 کا ہے میں نے غصے میں شوہر سے کہا کہ “مجھے آزاد کر دو” تو شوہر نے کہا کہ” ٹھیک ہے تم آزاد ہو”تیسرا واقعہ جنوری 2025 میں مجھے شوہر نے بتایا کہ جب آپ میکے گئی تھی تو میں نے واٹس ایپ پر طلاق کے میسج ٹائپ کیے تھے پھر آپ کو بھیجنے سے پہلے ہی ڈیلیٹ کر دیے تھے۔چوتھا واقعہ مارچ 2025 میں میں نے اپنے شوہر سے یہ کہا کہ “اگر آپ نے میرے حقوق ادا نہیں کرنے تو میں کسی اور سے شادی کر لیتی ہوں” تو شوہر نے کہا کہ “میری طرف سے اجازت ہے” ان تمام واقعات کے دوران ہم نے نکاح نہیں کیا ہم اکٹھے رہتے تھے اور صلح کی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اورنہ صلح کی گنجائش ہے۔
تو جیہ: پہلے واقعہ میں جب شوہر نے بیوی سے یہ جملہ کہا کہ” میری طرف سے طلاق ہے” تو اس سے ایک طلاق رجعی ہوئی اس کے بعد شوہر نے عدت کے اندر رجوع کر لیا جس کی وجہ سے دونوں کا نکاح باقی رہا اور شوہر کے پاس دو طلاقیں دینے کا اختیار باقی رہ گیا اس واقعہ کے چند سال بعد نومبر 2024 کےشروع میں بیوی کے مطالبے پر جب شوہر نے یہ جملہ کہا کہ “جاؤ ،تم آزاد ہو” اس سے شوہر کے حق میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ جملہ کنایات طلاق میں سے ہے اور شوہر کے حق میں کنایات طلاق سے بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوتی، البتہ بیوی کے حق میں اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی کیونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جن سے غصے کی حالت میں بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ شوہر کی طلاق کی نیت نہ ہو۔
پھر اس کے بعد جنوری 2025 کے شروع میں جب شوہر نے واٹس ایپ پر کئی بار “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” یا میری طرف سے طلاق ہے” جیسے پیغامات طلاق کی نیت سے ٹائپ کیے تو چونکہ واٹس ایپ پر میسج لکھنے کا تعلق کتابت غیر مرسومہ مستبینہ سے ہے جس میں طلاق کے واقع ہونے کے لیے صرف شوہر کی نیت کافی ہے چا ہے بیوی کو بھیجے یا نہ بھیجے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے طلاق کی نیت سے الفاظ ٹائپ کیےتھے اور بظاہر اس وقت بائنہ طلاق کی عدت بھی باقی تھی لہذا طلاق کے ان میسجز سے بقیہ طلاقیں بھی واقع ہوگئیں اور میاں بیوی دونوں کے حق میں تینوں طلاقیں مکمل ہوگئیں۔
ہدایہ (1/225) میں ہے:
فالصريح قوله أنت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي ” لأن هذه الألفاظ تستعمل في الطلاق ولا تستعمل في غيره فكان صريحا
در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/516) میں ہے:
باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب
قوله: (قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية ولو وجدت دلالة الحال، فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره
البحر الرائق (3/519 باب الکنایات) میں ہے:
قوله: (لا تطلق بها إلا بنية أو دلالة الحال) أي لا تطلق بالكنايات قضاء إلا بإحدى هذين لأنها غير موضوعة للطلاق بل موضوعة لما هو أعم منه ………. قيدنا بالقضاء لأنه لا يقع ديانة إلا بالنية ولا عبرة بدلالة الحال
فتح القدیر (4/55) كنايات كی بحث میں ہے:
والحاصل أن النية باطنة والحال ظاهرة في المراد فظهرت نيته بها فلا يصدق في إنكار مقتضاها بعد ظهوره في القضاء، وأما فيما بينه وبين الله تعالى فيصدقه الله سبحانه إذا نوى خلاف مقتضى ظاهر الحال. فقول المصنف لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة الحال يحمل على حكم القاضي بالوقوع، أما في نفس الأمر فلا يقع إلا بالنية مطلقا، ألا ترى أن أنت طالق إذا قال: أردت عن وثاق لا يصدقه وفيما بينه وبين الله هي زوجته إذا كان نواه
در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/509) میں ہے:
[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل
قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}
حاشیہ ابن عابدین (4/419) میں ہے:
قوله: (ومحله [الطلاق] المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……
فتح القدیر (3/443) کتاب الطلاق میں ہے:
وفي الزوجة أن تكون منكوحته أو في عدته التي تصلح معها محلا للطلاق. وضبطها في المحيط [البرهاني في مسائل العدة: 5/234] فقال: المعتدة بعدة الطلاق يلحقها الطلاق، والمعتدة بعدة الوطء لا يلحقها الطلاق
در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/528، 529) میں ہے:
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة …….. فمنه الطلاق الثلاث فيلحقهما
قوله: (بشرط العدة) هذا الشرط لا بد منه في جميع صور اللحاق، فالأولى تأخيره عنها. اهـ. ح ……… قوله: (فمنه إلخ) أي إذا عرفت أن قوله الصريح يلحق الصريح والبائن المراد بالصريح فيه ما ذكر ظهر أن منه الطلاق الثلاث فيلحقهما أي يلحق الصريح والبائن، فإذا أبان امرأته ثم طلقها ثلاثا في العدة وقع وهي واقعة حلب.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved