- فتوی نمبر: 31-185
- تاریخ: 08 ستمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تحریری طلاق کا بیان
استفتاء
مفتی صاحب کچھ عرصہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا چل رہا تھا جس کہ وجہ سے بیگم اپنے میکے چلی گئی اور وہاں جاکر خلع کا دعوی دائر کردیا اس کے ماموں عدالت میں رجسٹرار ہیں اس نے مجھے دھمکایا کہ تو خود ہی تحریر لکھ کر ہم کو چھوڑ دے ورنہ عدالتوںمیں گھسیٹوں گا ا ورتو ذلیل ہوگا اور اگر تو خود لکھ کر دے گا تو ہم تم سےبچے بھی نہیں لیں گے،ان کے کہنے پر میں نے مذکورہ مضمون تحریرکرواکر اس پر دستخط کردئیے تھے،دو ماہ بعد میری بیگم میرے ایک دوست کے گھر گئی اور منت سماجت کرکے ہماری صلح کروادی اس دوست نے ایک مولانا صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو لڑکی کے خلع کے مطالبہ پر تحریر ہے لہذا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہےاس لیے میں اس کو پھر گھر لے آیا اب وہ پانچ ماہ کی حاملہ بھی ہےکچھ دوست کہہ رہے ہیں کہ یہ تمہارے لیے حرام ہے،لہذا آپ مجھے شریعت محمدی کی روشنی میں بتادیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
طلاق نامے کی عبارت:
منکہ زید ولدخالد (شناختی کارڈنمبر*********)سکنہ مکان نمبر*********،گلی نمبر170،محلہ*********ر کا ہوں۔جوکہ من مظہرکا نکاح /شادی ہمراہ مسماۃ فاطمہ دختر عمر (شناختی کارڈنمبر*********)سکنہ مکان نمبر***،گلی نمبر***،محلہ ******سے مؤرخہ11.01.2014کو بشرع محمدی سرانجام پائی تھی۔۔۔۔۔۔بدیں وجہ کافی سوج وبچار کے بعدمن مظہر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ من مظہر اور مسماۃ مذکوریہ کا حدود اللہ میں رہتے ہوئے گزارا ناممکن ہوگیا ہےلہذا بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبرو اکراہ درج بالا وجوہات کی بناءپر رانا طاہر اقبال اپنی بیوی مسماۃ فاطمہ کوباہمی رضامندی سے طلاق ثلاثہ دیتا ہے،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں۔مذکوریہ آج سے میرے نفس پر حرام ہوچکی ہے اور آج سے وہ میری زوجیت سے آزاد ہے اور بعد ازعدت گزرنے عقد ثانی کرسکتی ہے،مجھے کوئی عذرواعتراض نہ ہے۔یہ کہ مابین فریقین کوئی لین دین باقی نہ رہا ہے ،لہذایہ دستاویز تحریر وتکمیل کرکے اس پر دستخط کرکے روبرو گواہان حاشیہ ثبت کردئیے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے المرقوم19.07.2023
وضاحت مطلوب ہے کہ:
1۔دستخط کرتے ہوئے آپ کی طلاق کی نیت تھی؟2۔کیا آپ کو معلوم تھا کہ اس کاغذ میں تین طلاقیں لکھی ہیں؟3۔کیا آپ نے اس کاغذ کو پڑھ کر دستخط کیے تھےیا بغیر پڑھے دستخط کیے تھے؟
جواب وضاحت:
1۔دستخط طلاق کی نیت سے کیے تھے۔2۔علم تھا کہ اس میں تین طلاقیں ہیں۔3۔تحریر پڑھی بھی تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے آپ کی بیوی آپ پر حرام ہوگئی ہے ، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے لہذا اب میاں بیوی کے لیے اکٹھے رہنا جائز نہیں ہے۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں طلاق نامے پر تین طلاقیں لکھی ہوئی تھیں اورشوہر کودستخط کرتے وقت معلوم تھا کہ طلاق نامے پر تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں لہذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے۔
شامی (4/ 443)میں ہے:
وفي التتارخانية………ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه.
شامی (3/ 293)میں ہے:
كرر لفظ الطلاق وقع الكل. وفى الشامية: (قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.
بدائع الصنائع(3/295)میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved