• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

طلاق کا میسج کرکے زبان سے ان شاء اللہ کہنا

استفتاء

میں نے اپنی بیوی کو طلاق کا میسج کیا کہ میں طلاق دیتا ہوں لیکن ساتھ زبان سے  ان شاء اللہ بھی کہا تھا اب کیا حکم ہے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

بیوی کا بیان:

میسج پر گفتگو کے دوران میرے شوہر نے جھگڑے میں پہلے یہ لکھا کہ “طلاق دے دوں گا” پھر بعد میں لکھا کہ “جاؤ میں طلاق دیتا ہوں آزاد ہو آج سے” پھر بعد میں کہنے لگا کہ میں نے زبان سے ان شاء اللہ بھی کہا تھا وہ پہلے بھی مجھے جھگڑے میں طلاق کا میسج کردیتا تھا اور ساتھ  ان شاءاللہ بھی لکھتا تھا اس مرتبہ اس نے ان شاء اللہ تو نہیں لکھا لیکن کہہ رہا ہے کہ میں نے زبان سے ان شاء اللہ کہا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر اس بات پر قسم دیتا ہے کہ میں نے طلاق کا میسج لکھتے وقت زبان سے ان شاء اللہ بھی کہا  ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر شوہر قسم دینے سے انکار دے تو عورت اپنے حق میں ایک طلاق بائن شمار کرے گی اور طلاق بائن سے نکاح ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد اکٹھے رہنے کے لیے دوبارہ نکاح  کرنا ضروری  ہوتا ہے جس  میں نیا حق مہر اور کم ا ز کم دو گواہ ہونا بھی ضروری ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے اگرچہ طلاق کا میسج کیا  ہے لیکن چونکہ ساتھ زبان سے ان شاء اللہ بھی کہا ہے اور طلاق کے الفاظ کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی لہٰذا اگر وہ اس بات پر قسم دیدیے کہ اس نے طلاق کا میسج کرتے ہوئے ان شاء اللہ کہا تھا تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر قسم کھانے سے انکار کردے تو عورت اپنے حق میں ایک طلاق بائن سمجھنے کی پابند ہے۔

شامی(4/628) میں ہے:

فلو تلفظ بالطلاق وكتب الاستثناء موصولا أو عكس أو أزال الاستثناء بعد الكتابة لم يقع

شامی(4/601) میں ہے:

(فإن اختلفا فى وجود الشرط) أى ثبوته ليعم العدمى (فالقول له مع اليمين) لانكاره الطلاق ……….. الا اذا برهنت

وفى الشامية: وإن ادعى تعليق الطلاق بالشرط وادعت الارسال فالقول له

شامی (4/526) میں ہے:

المرأة كالقاضى لايحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved