- فتوی نمبر: 33-350
- تاریخ: 02 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تحریری طلاق کا بیان
استفتاء
سوال یہ ہے کہ میرے گھر والے میری بیوی کے خلاف مجھے باتیں کرتے رہے ، بھڑکاتے رہے ، اور مجھے طلاق دینے کا کہتے رہے، بالآخر ایک موقع پر انہوں نے مجھے طلا قنامہ پر دستخط کرنے کا کہا، میں نے اس پر دستخط کر دیے ۔ جس طلاقنامہ پر میں نے دستخط کئے ہیں اس پر درج ذیل الفاظ تحریر تھے:
“طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، چنانچہ مسماۃ زینب مذکورہ کے مطالبہ طلاق پر مسماۃ مذکورہ کو دل و زبان سے تین بار لفظ طلاق، طلاق ، طلاق کہہ کر طلاق دیدی ہے۔ آج سے مسماۃ مذکورہ آزاد ہے، جہاں چاہے جس سے چاہے بعد از عدت میعاد 90 یوم عقد ثانی کر سکتی ہے۔”
مفتی صاحب ! واضح رہے کہ میں نے زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا، صرف اس طلاقنامہ پر دستخط کئے ہیں، اور دستخط کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ تھا کہ اس سے طلاق ہو جائے گی لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کتنی ہوں گی؟ اور اسکے بعد رجوع کی کوئی صورت ہو گی یا نہیں؟ نیز دستخط کرنے پر مجھے کسی نے زور زبردستی نہیں کی ، نہ ڈرایا دھمکایا، بس گھر والوں نے اسکے خلاف میر ا ذہن بہت بھر دیا تھا، اب میں پریشان ہوں، اور بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لانا چاہتا ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ: (1) اس صورتحال میں میری بیوی کو طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ؟(2) اگر طلاق ہو گئی ہے تو کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟ (3) اور دوبارہ ہمارے باہمی نکاح کی شرعی لحاظ سے اب کیا صورت ہو سکتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(2-1) مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے ۔
(3) دوبارہ اسی عورت سے نکاح کرنے کی صورت یہ ہے کہ یہ عورت تین طلاقوں کی عدت گزارنے کے بعد اپنی رضامندی سے کسی اور مرد سے گواہوں ( دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں نکاح کرلے اور وہ مرد کم از کم ایک دفعہ اس عورت سے ہمبستری کر کے اپنی خوشی سے اسے طلاق دے دے اور پھر یہ عورت اس طلاق کی بھی عدت گزارلے تو اس کے بعد آپ کے لیے اس عورت سے دوبارہ باقاعدہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
توجیہ: طلاق جس طرح زبان سے کہہ دینے سے واقع ہو جاتی ہے اسی طرح لکھ کر دینے سے یا لکھے ہوئے پر دستخط کرنے سے بھی واقع ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں بھی لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کرنے سے تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔
فتاوی شامی (442/4) میں ہے:
قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.
بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
فقہ اسلامی (ص:117) میں ہے:
اگر کسی اور نے طلاق نامہ لکھ دیا اور شوہر نے بلا جبر اس پر دستخط کردیئے ہوں تو اس سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved