- فتوی نمبر: 31-37
- تاریخ: 21 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تحریری طلاق کا بیان
استفتاء
میں نے اپنی بیوی کو23۔1۔1کو ایک طلاق زبانی دی جس کے الفاظ یہ تھے کہ “میں طلاق دیتا ہوں” پھر23۔1۔10 کو طلاق اول کا سٹام پیپر لکھوا کر اپنی بیوی کو بھیجا اور یونین کونسل میں جمع کروایا قانونی کاروائی کے لیے کیونکہ یونین کونسل زبانی طلاق کو نہیں مانتی اس کے بعد 2023-02-13 کو رجوع ہو گیا یعنی میں اپنی بیوی کے پاس اس کے گھر گیا وہ میرے گھر نہیں آئی اور ہم نے صلح کر لی اس کے بعد ہماری فون پر بات چیت بھی ہوتی رہی اور کافی دنوں بعد بوس کنار بھی ہوا لیکن مجھے اس کی تاریخ یاد نہیں، پھر 31 مارچ2023 کو ہماری پھر سے لڑائی ہو گئی کافی کوششوں کے بعد 17 نومبر 2023 کو طلاق دوم کا نوٹس بھیج دیا اور یونین کونسل میں جمع کروانے گیا تو انہوں نے طلاق اول کا سادہ کاغذ پر پرنٹ نکال کر کہا کہ قانونی کاروائی دوبارہ سے شروع کرنی پڑے گی لہذا قانونی کاروائی کے لیے اس پر دوبارہ سائن انگوٹھے کرنے پڑے اب لڑکی کے گھر والوں نے دعوت اسلامی کے کسی مفتی صاحب سے بات کروائی ہے وہ کہہ رہے ہیں آپ کا معاملہ ختم ہو چکا ہے اور تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں آپ سے گزارش ہے کہ میری پو زیشن واضح کر دیں کیونکہ میرے حساب سے میں نے اس کو دو طلاقیں دی ہیں ۔
پہلے طلاقنامے کی عبارت:
………… لہٰذا آج مورخہ 2023-01-10 کو مسماۃ مذکوریہ کو طلاق اول دیتا ہوں لہٰذا من مقر نے رو برو گواہان بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ غیرے برضامندی خود طلاق نامہ پر دستخط ونشان انگوٹھا ثبت کردیے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے……….
دوسرے طلاقنامے کی عبارت:
……………لہٰذا من مقر طلاق اول دے چکا ہوں جبکہ اب دوبارہ آج مورخہ 2023-11-17 و طلاق دوئم نوٹس مسماۃ طاہرہ الماس دختر محمد رفیق کو دیتا ہے ………….
دوبارہ لکھے گئے طلاق اول کے نوٹس کی عبارت:
……………… اب من مقر نے مذکورہ بالا حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی بیوی مسماۃ طاہرہ الماس دختر محمد رفیق کو رو برو گواہان طلاق اول دیتا ہوں ……………
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور آپ کی بیوی آپ پر حرام ہو چکی ہے لہذا اب نہ تو رجوع کی گنجائش ہے اور نہ ہی صلح ہوسکتی ہے۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے ایک مرتبہ زبانی طلاق دی یعنی یہ کہا کہ “میں طلاق دیتا ہوں”تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی تھی پھر اس کے بعد جب شوہر نے طلاق کے اسٹامپ پیپر پر دستخط کیے تو اس سے اگرچہ شوہر کی نیت سابقہ طلاق ہی لکھوانے کی تھی لیکن چونکہ طلاق نامے کے الفاظ “میں طلاق اول دیتا ہوں ” سابقہ طلاق کی خبر کے نہیں ہیں بلکہ انشاء طلاق کے ہیں نیز طلاق نامہ پر لکھی گئی طلاق کتابت مستبینہ مرسومہ ہے،جس میں بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہےلہذا جب شوہر نے طلاق نامےپر دستخط کردئیے تو اس سے دوسری رجعی طلاق بھی واقع ہو گئی اور اس کے بعد چونکہ شوہر نے عدت میں رجوع کرلیا تھا اس لیے نکاح برقرار رہا ،لہذااس کے بعد جب شوہرنے دوسرے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس سےتیسری طلاق بھی واقع ہو گئی اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی جن کے بعد نہ تو رجوع کی گنجائش ہے اور نہ ہی صلح ہوسکتی ہے۔
ہنديہ (1/ 378)میں ہے:
الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.
ہندیہ(1/470)میں ہے:
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.
بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:
أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.
بدائع الصنائع (3/ 109)میں ہے:
«وإن كتب كتابة مرسومة على طريق الخطاب والرسالة مثل: أن يكتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق أو إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق يقع به الطلاق، ولو قال: ما أردت به الطلاق أصلا لا يصدق إلا أن يقول: نويت طلاقا من وثاق فيصدق فيما بينه وبين الله عز وجل؛ لأن الكتابة المرسومة جارية مجرى الخطاب.
بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
بدائع الصنائع(3/101) میں ہے:
أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا.
المحيط البرهانى (3/ 207)میں ہے:
وفي «الواقعات» : إذا طلق امرأته ثم قال لها: قد طلقتك أو قال بالفارسية: طلاق دادم تر ادادم ترا طلاق يقع تطليقة بائنة، ولو قال: قد كنت طلقتك أو قال بالفارسية طلاق داده ام ترا لا يقع شيء بالكلام الثاني.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved