- فتوی نمبر: 2-182
- تاریخ: 06 جنوری 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
***نے گھریلو جھگڑے وناچاقیوں کی بناء پر اپنی بیوی*** کو اس طورطلاق دی کہ تین اشٹام لے کر ایک اشٹام پر طلاق کی درج ذیل عبارت لکھ کر بیوی کے والد کو دے دی اور مزید بھی لکھ دیا کہ میں ہر ماہ بمطابق قانون دوسری ،تیسری طلاق ادا کرتارہوں گا اور طلاق کی عبارت ملاحظہ ہو ” میں بقائم ہوش وہواس خمسہ ۔۔۔۔ورضا مندی خود اس مذکورہ اپنی بیوی مسماة آمنہ بی بی کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتاہوں ،آج کے بعد میرا ان سے کوئی واسطہ نہ ہوگا”۔
سوال یہ ہے کہ طلاق رجعی ہوئی یا بائن ؟ نیز دوران عدت اگر رجوع کرلے تو کیا رجوع معتبر ہوگا۔
نوٹ: اسے بعد میں دوسرا اور تیسرا اشٹام نہ دیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں منسلکہ طلاق نامہ کی روسے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا ہے۔ میاں بیوی چاہیں تو دوگواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرکے اکٹھے رہ سکتےہیں۔
وأما الصريح البائن فبخلافه وهو أن يكون بحرف الإبانة أو بحروف الطلاق لكن قبل الدخول أو بعد ه لكن…أو موصوفا بصفة تنبئ عن البينونة أو تدل عليها من غير حرف العطف مثل أنت طالق بائن…كما يقع البائن (لوقال) أنت طالق طلقة تملكي بها نفسك لأنها لا تملك نفسها إلا بالبائن .قوله (لأنها لا تملك نفسها إلا بالبائن) صرح به في البدايع وقال أيضاً إذا وصف الطلاق بصفة تدل على البينونة كان بائناً.(شامی،ص:373،ج: 4)
2۔ ” ہرماہ بمطابق قانون دوسری تیسری طلاق اداکرتارہوں گا” کے الفاظ سےکوئی طلاق نہیں ہوئی ،کیونکہ یہ محض ایک وعدہ ہے۔ اور طلاق کے وعدہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
بخلاف قوله طلقي نفسك فقالت….أو أنا أطلق نفسي لم يقع لأنه وعد.(جوهره) مالم يتعارف أو تنو الإنشاء.(فتح).شامی ،ص:548 ،ج :4۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved